Thursday, January 27, 2011

DEEN-E-ELAHI

.

INTRODUCTION

.

ریاض احمد نام اور گوہر شاہی کنیت ہے آپ کے جد اعلیٰ حضرت بابا سید گوہر علی شاہ جو ایک کامل بزرگ گزرے ہیں ان کی نسبت سے گوہر شاہی رکھا گیا اس طرح آپ کا پورا نام ریاض احمد گوہر شاہی ہے۔ آپ25نومبر 1941 کو برصغیر پاک ہند کے ایک چھوٹے سے گاؤں ڈھوک گوہر شاہ تحصیل گوجر خان ضلع راولپنڈی میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کانام حضرت الحاج فضل حسین قادری اور والدہ کانام دولت بی بی ہے۔
خاندانی پس منظر حضرت بابا گوہر شاہ سےتعلق

آپ کے جد اعلیٰ سید گوہر شاہ سادات بخاری ہیں جو کشمیر سری نگر میں رہتے تھے
ایک دفعہ کچھ غنڈوں نے ایک مسلمان لڑکی کو اغوا کرلیا آپ نے تلوار اٹھائی اور سات غنڈوں کو جہنم واصل کردیا۔ انگریز حکومت نے آپ کو گرفتار کرنا چاہا تو آپ وطن چھوڑ کر راولپنڈی تشریف لے آئے کچھ عرصہ نالہ لئی کے پاس بیٹھے رہے جب یہاں بھی پولیس کا خطرہ ہوا تو آپ تحصیل گوجر خان کے ایک جنگل میں بیٹھ گئے اور ریاضت و عبادت شروع کردی۔ کئی سال بعد آپ سے فیض جاری ہوگیا۔ اس جنگل کا رقبہ جوکہ گوجر برادری کے پاس تھا انہوں نے آپ کو وقف کردیا۔ جواب ڈھوک گوہر شاہی کے نام سے منسوب ہے۔ آپ نے کشمیری مغل خاندان میں شادی کی بیٹے اور بیٹیاں ہوئیں اور یوں پانچویں پشت میں آپ کے والد الحاج فضل حسین قادری نواسوں اور والدہ ماجدہ دولت بی بی کا تعلق آپ کے پوتوں سے ہے حضرت ریاض احمد گوہر شاہی کے دادا مغلیہ خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔

حضرت بابا گوہر علی شاہ آخری ایام میں کسی ناراضگی کے سبب بکرا منڈی راولپنڈی میں گوشہ نشین ہوگئےاور وہیں آپ کا وصال ہوگیا جہاں اب بھی دربار بنا ہواہے۔ کہتے ہیں کہ جہاں آپ کا دربار بنا ہوا ہے آپ کی گدڑی اور عصا مدفن ہے جبکہ جسم اطہر کو آپ کے آبائی گاؤں ڈھوک گوہر شاہ لایا گیا اس لئے وہاں بھی آپ کا دربار مرجع خلائق ہے چونکہ آپنے (بکرامنڈی راولپنڈی) کافی عرصہ ریاضت و عبادت میں گزارا اس لئے آپ کا فیض بکر امنڈی کے دربار میں ہے جبکہ ڈھوک گوہر شاہ تحصیل گوجر خان ضلع راولپنڈی) میں بھی آپ کے دربار سے فیض جاری ہے۔

حضرت سیدنا ریاض احمد گوہر شاہی مدظلہ العالیٰ کا بچپن

بچپن ہی سے آپ کارخ اولیاءکرام کے درباروں کی طرف تھا۔ آپ جو بات کہتے وہ پوری ہوجاتی۔
آپ کے والد الحاج فضل حسین قادری فرماتے ہیں کہ گوہر شاہی پانچ یا چھ سال کی عمر سے ہی غائب ہوجاتے ہم جب انہیں ڈھونڈتے نکلتے تو ان کو حضرت نظام الدین اولیاء(دہلی) کے مزار پربیٹھا ہوا یا سرہانے کی طرف سویا ہوا پاتے۔مجھے کئی مرتبہ ایسا محسوس ہوا جیسے گوہر شاہی حضرت نظام الدین اولیاء سے باتیں کررہے ہیں( یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب آپ کے والد الحاج فضل حسین قادری ملازمت کے سلسلے میں دہلی میں مقیم تھے)۔آپ کی والدہ ماجدہ دولت بی بی فرماتی ہیں شکم مادر سے پیدائش‘ پیدائش سے لڑکپن لڑکپن سے بچپن‘ بچپن سے جوانی‘ حتیٰ کہ تاحال ریاض احمد گوہر شاہی سے مجھے کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔ابھی شیر خوار تھے میں گھر کے کام کاج میں اکثر دودھ پلانا بھول جاتی لیکن اس قدر صابر تھے کہ کبھی بھوک میں بھی روکر اپنی طرف مجھے متوجہ نہ کیا۔ جہاں سلاتی سوجاتے ہمیشہ مسکراتے رہتے تھے آپ فرماتی ہیں بچپن میں اگر کبھی اسکول نہ جاتے تو نارضگی کا اظہار کرتی برابھلا کہتی لیکن وہ اف تک نہ کرتے۔ میرے بزرگ لکہ میاں ڈھوک شمس والے کہا کرتے تھے کہ ریاض کو برا بھلا نہ کہا کر جو کچھ میں اس میں دیکھتا ہوں تمہیں خبر نہیں آپ فرماتی ہیں انسانی ہمدردری اس قدر کہ اگر اسے پتہ چل جائے کہ گاؤں سے آٹھ دس میل کے فاصلے پر کوئی بس خراب ہوگئی ہے تو ان لوگوں کے لئے کھانا بنواکر سائیکل پر انہیں دینے جاتا۔
ابتدائی تعلیم
قرآن پاک کی تعلیم گاؤں میں ابتدائی تعلیم قریب ہی گاؤں موہڑہ نوری میں قائم پرائمری اسکول میں حاصل کی بعد میں مڈل ہائی ایف اے اور بعد میں پولی ٹیکنک ڈپلومہ بھی حاصل کیاپرائمری اسکول کے ماسٹر امیرحسین کہتے ہیں ” میں علاقے میں بہت سخت استاد مشہور تھا۔ شرارتی بچوں کو سزا دینا ان کی (حضرت گوہر شاہی) شرارت یہ تھی کہ اسکول دیر سے آتے۔ جب میں غصہ میں انہیں سزا کے طور پر مارنے لگتا تومجھے محسوس ہوتا جیسے کسی نے میرا ڈنڈا پکڑ لیا ہو۔ اس طرح مجھے ہنسی آجاتی۔ آپ کی برادری اور دوستوں کا کہنا ہے کہ ہم نے کبھی انہیں (حضرت گوہر شاہی) لڑتے جھگڑتے یا مارتے پیٹتے ہوئے نہیں دیکھا۔ بلکہ اگر کوئی دوست غصہ کرتایا انہیں( حضرت گوہر شاہی) مارنے کے لئے آتا تو یہ ہنس پڑتے۔

حضرت سیدنا ریاض احمد گوہر شاہی مدظلہ العالیٰ کی جوانی کے حوالے سے
یہ ان دنوں کی بات ہے جب حضرت سیدنا ریاض گوہر شاہی آٹھویں جماعت میں تھےآپ کی
ممانی (زاہدہ وپارسا عبادت گزار خاتون کے ساتھ ساتھ حرص و حسد میں بھی مبتلا تھیں جو کہ اکثر عبادت گزاروں میں ہوجاتاہے) نے کہا ”تجھ میں اور تو سب ٹھیک ہے لیکن تو نماز نہیں پڑھتا۔ حضرت گوہر شاہی نے برجستہ جواب دیا نماز رب کا تحفہ ہے میں نہیں چاہتا کہ نماز کے ساتھ بخل ‘تکبر‘ حسد‘ کینہ کی ملا وٹ رب کے پاس بھیجوں جب کبھی بھی نماز پڑھوں گا تو صحیح نماز پڑھوں گا تم لوگوں کی طرح نہیں کہ نماز بھی پڑھتے ہو اور غیبت ‘ چغلی ‘ بہتان طرازی جیسے کبیرہ گناہ بھی کرتے ہو۔“
حضرت گوہر شاہی خود فرماتے ہیں کہ ”میں دس بارہ سال کی عمر سے ہی خواب میں رب سے باتیں کرنا اور بیت المامور مجھے نظر آتاتھا۔لیکن مجھے اس کی حقیقت کا علم نہ تھا۔ چلہ کشی کے بعد جب وہی باتیں اور وہی مناظر سامنے آئے تو حقیقت آشکار ہوئی۔“ آپ اپنے رشتے کے ماموں کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ” وہ غلط کاریوں کا مرتکب تھا اور بعد میں مجھے بھی ملوث کرنا چاہتا تھا کہ سوتے میں میں دیکھتاہوں کہ ایک بڑا گول چبوترا ہے اور میں اس کے نیچے کھڑا ہوں اوپر سے ایک کرخت قسم کی آواز آتی ہے۔اسکو لاؤ دیکھتا ہوں کہ ماموں کو دو آدمی پکڑ کر لارہے ہیں اور اشارہ کرتے ہیں کہ یہ ہے وہ پتھر آواز آتی ہے اس کو گرزوں سے مارو تب اس کو مارتے ہیں تو وہ چیختا اور دھاڑیں مارتا ہے چیختے چیختے اس کی شکل سور کی ہوجاتی ہے پھر آواز آتی ہے تو بھی اس کے ساتھ اگر شامل ہوا تو تیرا بھی یہی حال ہوگا۔ پھر میں توبہ توبہ کرتاہوں اور آنکھ کھلتی ہے تو زباں پر یہی ہوتا ہے کہ یارب میری توبہ یارب میری توبہ اور کئی سال تک اس خواب کا اثر رہا۔ اس کے دوسرے دن میں گاؤں کی طرف جارہا تھا۔ بس میں سوار تھا۔ کہ راستے میں دیکھا کچھ ڈاکو ایک ٹیکسی سے ٹیپ ریکارڈ نکال رہے ہیں ڈرائیور نے مزاحمت کی تو اس پر چھریوں سے وارکرکے قتل کردیا۔یہ منظر دیکھ کر ہماری بس وہاں رک گئی اور وہ ڈاکو ہمیں دیکھ کر فرارہوگئے اور ڈرائیور نے تڑپ تڑپ کر ہمارے سامنے جان دیدی۔ پھر ذہن میں یہی آیا کہ زندگی کا کیا بھروسہ! رات کو سونے لگا تو اندر سے یہ شعر گونجنا شروع ہوگیا۔
کر ساری خطائیں معاف میری
تیرے درپہ میں آن گرا
ساری رات گریہ زاری میں گزری اس واقعہ کے کچھ عرصہ بعد 19سال کی عمر میں جسئہ توفیق الٰہی
ساتھ لگادیا جو ایک سال رہا اس کے اثر سے کپڑے پھاڑ صرف ایک دھوتی میں جام داتار کے جنگل اور پھر دربار واقع نواب شاہ سندھ چلا گیا لیکن وہاں سے بھی منزل نہ ملی میرا بہنوئی مجھے وہاں سے واپس دنیا میں لے آیا۔
.
آپ فرماتے ہیں ”26سال کی عمر سے ہی پیروں فقیروں سے روحانیت کی تلاش میں نکلا۔لیکن کہیں سے بھی دل کو تسکین نہ ہوئی آخر پیروں فقیروں سے بیزار اور مزارات سے مایوس ہوکر دنیاوی کاروبار میں لگ گیا۔“ لاتعداد کاروباری تجربات کئے اور آخر راولپنڈی میں FQاسٹیل انڈسٹریز رجسٹرڈ قائم کی جہاں سوئی گیس کے چولھے اور بجلی کا سامان بنتا تھا۔ کاروبار کے بعد شادی کرلی شادی کے بعد تین بچے غیاب الدین بابر طلعت محمود اور مجیب عالم پیداہوئے۔ مجیب عالم ڈیڑھ سال کی عمر میں اللہ کو پیارے ہوگئے۔ اس وقت میں لال باغ سہون شریف چلہ میں تھے کاروبار میں خاطر خواہ نتائج سامنے نہ آئے بلکہ مسلسل خسارہ ہونے لگا۔25سال کی عمر میں جسہ گوہر شاہی کو باطنی لشکر کے سالار کی حیثیت سے نوازا گیا جس کی وجہ سے ابلیسی لشکر اور دنیاوی شیطانوں کے شرسے محفوظ رہے۔ جسہ توفیق الٰہی اور طفل نوری‘ ارواح‘ ملائکہ اور لطائف سے بھی افضل و اعلیٰ مخلوقیں ہیں ان کا تعلق بھی ملائکہ کی طرح براہ راست رب سے ہے اور ان کا مقام ” احدیت ہے۔

حصول روحانیت کے حوالے سے
جب آپ کی عمر34سال ہوئی تو حضرت شاہ عبداللطیف بری امام رحمتہ اللہ علیہ (جن کا مزار اقدس
اسلام آباد میں ہے) سامنے آئے اور کہا بیٹا اب تیرا وقت ہے دوبارہ جنگل جانے کا علوم باطن کے لئے حضرت سخی سلطان باہو رحمتہ اللہ علیہ(شور کوٹ ضلع جھنگ) کے دربار پر چلا جا آپ کے حکم کی تعمیل میں کاروبار بیوی بچے اور ماںباپ چھوڑ کر شور کوٹ چلے آئے۔ حضرت سخی سلطان باہو رحمتہ اللہ علیہ کی نظر کرم سے آپ کی تصنیف” نور الہدیٰ“ آپ کی منزل کا ساتھی بن گئی۔
۔ 14سال بعد ”جسہ توفیق الٰہی“ ہی دوبارہ سہون کے جنگل میں لانے کا سبب بنا اور پھر اپ مجاہدہ نفس
اور سکون قلب کے لئےسہون تشریف لے آئے۔ تین سال سہون کی پہاڑیوں اور لعل باغ میں چلہ کشی کی مجاہدہ کیا۔اللہ کو پانے کے لئے اس کے عشق کے لئے دنیا چھوڑی۔35سال کی عمر میں15رمضان المبارک1976کو ایک لطیفہ نور قلب میں داخل کیا گیا کچھ عرصہ بعد تعلیم و تربیت کے لئے کئی مختلف مقامات پر بلایا گیا ۔15رمضان 1977کو اللہ کی طرف سے خاص الہامات کا سلسلہ شروع ہوا راضیہ مرضیہ کا وعدہ ہوا اور مرتبہ ارشاد حاصل ہوا۔1978 باطنی حکم کے تحت جام شورو سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کے عقب میں چھہ ماہ تک جھونپڑی ڈالے بیٹھے رہے یہیں آپ نے قبر کھود کر دعوت تکسیر پڑھی اور کامیابی حاصل کی آخر کار منشا ایزدی کے تحت مخلوق خدا کو فیض ہونا شروع ہوگیا
۔ 1978کے وسط ہی میں پہلے گوہر منزل سرے گھاٹ حیدرآباد میں مقیم ہوئے یہاں پر ہی راقم
الحروف وصی محمد قریشی‘ محمد عارف میمن‘ سلطان جاوید‘ ڈاکٹرعبدالقیوم و دیگر چند اور احباب بھی آپ کے حلقہ ارادت میں شامل ہوئے ایک روز آپ دوبارہ حضرت جام داتار کی دربار واقع نواب شاہ پہنچے تو صاحب مزار سامنے آگئے آپ فرماتے ہیں میں نے کہا اس وقت اگر مجھے قبول کرلیا جاتا تو بیچ میں نفسانی زندگی سے محفوظ رہتاانہوں نے جواب دیا اس وقت تمہارا وقت نہیں تھا۔ گوہر منزل سرے گھاٹ حیدرآباد پر دعوت تبلیغ اور لاعلاج مریضوں کی شفایابی کا سلسلہ شروع ہوگیا تو روز بروز حلقہ ارادت بڑھنے لگا۔ آپ کی زوجہ محترمہ بیگم امینہ ریاض صاحبہ عرصہ چلہ کشی کی بابت فرماتی ہیں کہ ”جب آپ بغیر بتائے گھر سے چلے گئے۔گھر والوں نے بڑاہی تلاش کیا اورکوئی سراغ نہیں ملا تو سوچا کہیں کسی حادثہ کا شکار تو نہیں ہوگئے اور اسی صبر میں وقت گزرنے لگا۔ فاتحہ درود ہونے لگی۔ برادری کے لوگوں میں بھانت بھانت کی باتیں ہونے لگی۔ لیکن مجھے کامل یقین تھا کہ جہاں کہیں بھی ہیں خیر و عافیت سے ہیں۔ اکثر خواب میں تسلی دی جاتی اور دل گواہی دیتا کہ ایک نہ ایک دن وہ ہم سے ضرور ملیں گے اسی آس میں بچوں کے ساتھ زندگی گزارتی رہی آخر وہ دن بھی آن پہنچا اور اطلاع ملی کہ آپ(ریاض احمد گوہر شاہی) خیر و عافیت سے گوہر منزل حیدرآباد میں قیام پذیر ہیں یہ خبر سن کر خوشی کی انتہا نہ رہی اور میں آپ کے بہنوئی جو اس وقت نواب شاہ کے مضافات میں مقیم تھے بچوں سمیت پہنچ گئی۔“ بچوں کے پہنچنے کی اطلاع بذریعہ خط آپ کے بہنوئی نے گوہر منزل سرے گھاٹ حیدرآباد دی جہاں آپ مقیم تھے بچوں کے آنے کی اطلاع پہنچی تو آپ کچھ پریشان ہوئے لیکن ا س وقت کے ارادت مندوں کے اصرار پر آپ بچوں سے ملاقات کی غرض سے آپ کے بہنوئی کے گھر نواب شاہ پہنچ گئے اس وقت کیا منظر ہوگا تحریر قاصر ہے۔ لیکن جب وہ واپس حیدرآباد آنے لگے تو بیوی بچے بھی ساتھ ہولئے اب وہ کس طرح اکیلا جانے دے سکتے تھے اگلے روز بیوی بچے بھی گوہر منزل سرے گھاٹ حیدرآباد پہنچ گئے
۔ سال 1978 رمضان المبارک میں آپ کے ارادت مندوں نے آپ کو بچوں سمیت گوہر منزل سرے گھاٹ
حیدرآباد سے ڈاکٹر عبدالقیوم کی رہائش گاہ 88 بریلی کالونی لطیف آباد نمبر11حیدرآباد منتقل کردیا۔ اور یہیں محفل درود شریف کی ساتھ ساتھ لا علاج مریضوں کا علاج‘ ذکر الٰہی کی دعوت تبلیغ کا کام بھی شروع ہوگیا۔

.

MENAR-E-NOOR

.
MENAR-E-NOOR (Uudu)
.
MENAR-E-NOOR (English)
And
.

Monday, December 27, 2010

PAGE 1

کہاں تیری ثناء کہاں یہ گناہگار بندہ
کہاں لاہوت و لامکاں کہاں یہ عیب دار بندہ
نور سراپا ہے تو مگر یہ نقص دار بندہ
کتنی جرات بن گیا تیرے عشق کا دعویدار بندہ
مگر عشق تیرا دن رات ستائے پھر میں کیا کروں
عشق تیرا دشت و جبل میں رلائے پھر میں کیا کروں


پاک ہے ذات تیری مگر یہ بے نشان بندہ
بادشاہ ہے تو زمانے کا مگر یہ بے اشنان بندہ
مالک ہے تو خزانے کا مگر یہ بے سروسامان بندہ
جتلائے پھر بھی عشق تجھ سے یہ انجان بندہ
مگر اس عشق میں موت بھی نہ آئے پھر میں کیا کروں
عشق تیرا دشت و جبل میں رلائے پھر میں کیا کروں


آئی آواز اے عاشق اپنا گریبان دیکھ
عمل ہیں تیرے روسیاہ اس سیاہی کا نشان دیکھ
لگا نہ دھبہ عشق پر اے نادان دیکھ
گر بننا ہے عاشق پھر نصوحے کی دکان دیکھ
مگر تیرا یہ نصوحہ نہ مل پائے پھر میں کیا کروں
عشق تیرا دشت و جبل میں رلائے پھر میں کیا کروں


لگ گئی آگ سینے میں بجھانا بھی مشکل ہو گیا
عشق کہتے کہتے عشق نبھانا بھی مشکل ہو گیا
دیکھا جو دستور یار کو جان بچانا بھی مشکل ہو گیا
جکڑے گئے زنجیروں میں راز بتانا بھی مشکل ہو گیا
گر تو بھی جلوہ نہ دکھائے پھر میں کیا کروں
عشق تیرا دشت و جبل میں رلائے پھر میں کیا کروں


نہیں ہوں سوالی فقیری میرا دھندا نہیں ہے
دنیا والو عشق خدا ہے عشق بندہ نہیں ہے
عرصے سے ہوں آوارہ میں کوئی اندھا نہیں ہے
عشق ہے یہ ابدی کوئی پرندہ نہیں ہے
یہ دنیا مجھے پاگل بنائے پھر میں کیا کروں
عشق تیرا دشت و جبل میں رلائے پھر میں کیا کروں


خیال آتا ہے مجھے اپنی سیاہ کاری کا
دل روتا ہے دیکھ کر حال اپنی خریداری کا
ہوتی ہے تسلی پھر دیکھ کے حال آہ و زاری کا
ملتا ہے پھر ثبوت مجھے تیری غفاری کا
مگر یہ عشق فلک سے جا ٹکرائے پھر میں کیا کروں
عشق تیرا دشت و جبل میں رلائے پھر میں کیا کروں


نکلا جو پنجہ ابلیس سے سمن جاری ہو گیا
ڈالا گھیرا فوج ابلیس نے ملزم باغی ہو گیا
نفس بھی ہوا دشمن دل تھا جو غازی ہو گیا
بچایا جو قلندرؒ نے رب بھی راضی ہو گیا
اب بھی تو پردہ نہ اٹھائے تو میں کیا کروں
عشق تیرا دشت و جبل میں رلائے پھر میں کیا کروں


نکلا نالہ جب سینے سے دل سینے میں تڑپنے لگا
غضب عشق میں آ کر سارا جنگل اللہ ھُو اللہ ھُو کرنے لگا
پہنچی آواز جو عرش پر عرش بھی تھر تھر ہلنے لگا
کیسی یہ ھُو تھی کہ زمین و آسمان جلنے لگا
تو پھر بھی سر نہ اٹھائے تو میں کیا کروں
عشق تیرا دشت و جبل میں رلائے پھر میں کیا کروں


پڑے ہیں ٹیلوں پر یہ بے آب و گیاہی
تعجب ہے کیا یہی ہے قاعدہ فقرائی
نیند گئی لقمہ بھی گیا یہی ہے رضائے الٰہی
پڑے ہیں مستی میں نظریں جمائے ہوئے گوھر شاہی
ان نظروں میں گر تو نہ آئے پھر میں کیا کروں
عشق تیرا دشت و جبل میں رلائے پھر میں کیا کروں


ملتا نہیں خدا بھی محمد کی رضا کے بغیر
ہوتی نہیں رضائے محمدی شریعت مصطفیؐ کے بغیر
پہنچ نہ سکے گا ہرگز تو اس شاہراہ کے بغیر
کہ خدا بھی چلتا نہیں قانون خدا کے بغیر
اس قانون میں بھی تو سامنے نہ آئے تو میں کیا کروں
عشق تیرا دشت و جبل میں رلائے پھر میں کیا کروں


یوں تو اللہ ھُو ہے جا بجا مگر اک نقطے میں بات ہوتی ہے
مل جائے گر یہ نقطہ پھر نور کی برسات ہوتی ہے
اسی نقطے کی تلاش میں طالبوں کی عمر برباد ہوتی ہے
خدا کی قسم اسی نقطے سے مجبور خدا کی ذات ہوتی ہے
یہ نقطہ پا کر بھی تو نظر نہ آئے پھر میں کیا کروں
عشق تیرا دشت و جبل میں رلائے پھر میں کیا کروں


ہزاروں رستے ہیں عرش بریں تک ابھی تو تو رواں ہے
ہزاروں دشمن ہیں ان راہوں میں تیرا کدھر گماں ہے
گر مقدر ہیں بلند تیرے آشیانہ بہ آسمان ہے
مگر آسماں کے آگے اس عشق کی دکان ہے
ان راہوں میں ہی گر عشق ستائے پھر میں کیا کروں
عشق تیرا دشت و جبل میں رلائے پھر میں کیا کروں


آگئے کدھر ہم یہ تو سخی شہبازؒ کی چلّہ گاہ ہے
واہ رے خوش نصیبی یہ ہماری بھی عبادت گاہ ہے
وہ تو کر گئے پرواز اب ہماری انتظار گاہ ہے
اس بھٹکے ہوئے مسافر پر انکی بھی نگاہ ہے
سخی شہبازؒ کی محفل میں جا کر بھی یاد تیری ستائے پھر میں کیا کروں
عشق تیرا دشت و جبل میں رلائے پھر میں کیا کروں


اس عشق میں طلعت و بابر کو بھی بھلا بیٹھے
یاد رہی نہ کسی کی اپنا آپ بھی گنوا بیٹھے
عقل تھی جو تھوڑی سی وہ بھی جلا بیٹھے
اے رب تیرے عشق میں ہم یہ دکھڑا بھی سنا بیٹھے
گر تو بھی قدم قدم پر آزمائے پھر میں کیا کروں
عشق تیرا دشت و جبل میں رلائے پھر میں کیا کروں

PAGE 2


عشق ہوا کیسے کچھ سمجھ میں بھی آیا نہیں
نہ پوچھا کسی سے کسی نے بھی سمجھایا نہیں
مرشد تھا باطنی شائد چراغ اس نے جلایا نہیں
تجھ سے کیا شکوہ مرشد بھی اب تک سامنے آیا نہیں
گر کوئی مرشد کا نام پوچھ پائے پھر میں کیا کروں
عشق تیرا دشت و جبل میں رلائے پھر میں کیا کروں


کیا اقرار جب ہم نے جلنا نبی پاک نے تصدیق کی
باھُوؒ بنے ضامن تب اللہ نے نور کی توفیق دی
پھر دھکیلے گئے پل صراط پر یہ بھی بخشش عجیب دی
جان کا خطرہ ایمان کا بھی کتنی کھائی قریب دی
بارہ سال سے پہلے یہ پل نہ ختمائے پھر میں کیا کروں
عشق تیرا دشت و جبل میں رلائے پھر میں کیا کروں


کتنا مہنگا ہے عشق تیرا یہ تو کسی نے بتایا نہ تھا
ہو جائیں گے زندہ درگور کوئی اس لئے میں آیا نہ تھا
دن رات روتے رہیں گے میں نے اتنا جرم کمایا نہ تھا
جرم ہے تیرے عشق کا جو میری سمجھ میں آیا نہ تھا
عشق کی آگ جلا کے عشق کو رلائے پھر میں کیا کروں
عشق تیرا دشت و جبل میں رلائے پھر میں کیا کروں


ہو گئے قیدی ہم جبلوں کے اک دلدار کی خاطر
پی رہے ہیں خون جگر ان دیکھے دربار کی خاطر
سولی پہ لٹکے گئے عشق کی تار کی خاطر
جان بھی نہ نکلے اک تیرے دیدار کی خاطر
روح کو ادھر بھی چین نہ آئے پھر میں کیا کروں
عشق تیرا دشت و جبل میں رلائے پھر میں کیا کروں
٭٭٭٭٭٭٭


جس ذکر سے دھڑکے نہ دل وہ ذکر کیا
گر آنکھوں سے نکلیں نہ آنسو وہ فکر کیا
دیدار نور ہو نہ میسر وہ شکر کیا
مر نہ جائے تیرے عشق میں خاکی وہ بشر کیا
پہچان نہ سکے جو حق و باطل کو وہ نظر کیا
زندگی گزاری تیرے امتحانوں میں اور صبر کیا
غاروں میں پگھلتے رہے اب خوف قبر کیا
عشق میں عقل ہی نہ رہا پھر حساب حشر کیا
کتنی انمول تھی یہ زندگی جو مدت تک حیوانی میں گزری
پتہ نہ تھا راہ و منزل کا جو بھی گزری پریشانی میں گزری
نفس کی خدمت کرتے رہے دن رات تھی شےطانی میں گزری
کتنے ہوتے ہیں خوش نصیب وہ لوگ جنکی عمر ذکر سلطانی میں گزری
٭٭٭٭٭٭٭

PAGE 3


گر ہر سانس سے نکلے نہ اللہ ھو وہ عبادت کیا
جھلک نہ پڑے ریاضتوں کی وہ ریاضت کیا
گھسیٹتا رہے نفس دنیا میں وہ آدمیت کیا
بسا نہ سکے گر دل پہ کعبہ وہ انسانیت کیا
بس جائے جس دل میں کعبہ وہی ملائکوں کا سجدہ گاہ ہے
ہوتا ہے اسی کا عرش پہ ٹھکانہ وہی تو عید گاہ ہے
اسی کی جنبش سے ہلتا ہے عرش معلّٰی وہی اسرار آگاہ ہے
جس نے پایا گر نہ یہ رتبہ وہی خام نگاہ ہے
اے دل تو انجانوں کو محرم راز نہ بنا
ان عاقلوں کو یہ بھید نہ سنا
پا نہ سکے اس راز کو عیب کی نظر نہ لگا
یہ تو دل کا سودا ہے ہے جو نصیب اولیائ
٭٭٭٭٭٭٭


نماز و روزوں سے ملتا نہیں یہ ہر گز خام خیالوں کو
چلوں اور وظیفوں سے بھی ملتا نہیں یہ ناسوتی پیالوں کو
دینی پڑتی ہے قربانی مال و جان کی اس راہ پہ چلنے والوں کو
پھر بھی قسمت سے ملتا ہے یہ سودا ان صابرین جیالوں کو
لکھ دل پر اللہ ھو تصور سے سبق سیکھ جلالیت کا
پھر لکھ سینے پر محمد بسا یہ بھی نقطہ جمالیت کا
دل ہوگا تب صدق آئے گا مزہ پھر شریعت کا
ورنہ نہیں ہے ثبوت کچھ تیری نمازوں کی قبولیت کا


پہن کر چوغے و کلاوے فقیر بن گئے تو کیا
پڑھ کر تصوف پیر بن گئے تو کیا
کر کے یاد حدیث فقہ مُلاّ بے تقدیر بن گئے تو کیا
عمل نہ کیا فرعون بے تقصیر بن گئے تو کیا
اسلام عمل سے ہے زبانی قیل و قال نہیں
مریدوں کا کیا پیروں کا بھی کچھ حال نہیں
ڈھونڈ لیں کسی کامل کو اتنی تو مجال نہیں
کر رہے ہیں اسلام کے ٹکڑے اتنا خیال نہیں
دعویٰ پھر بھی ہے ان کو اللہ سے رسائی کا
رہزن بنے بیٹھے ہیں رستہ دکھاتے ہیں شناسائی کا
خود تو بے خبر ہیں پیالہ پلاتے ہیں اولیائی کا
آیا جو ان کے شکنجے لگ گیا ٹیکہ شیطان کبریائی کا


کر کے حج کئی دل قابو میں نہ آیا تو کیا مزہ
پڑھ کے قرآن بھی کچھ عمل میں نہ آیا تو کیا مزہ
کھا کے طمانچہ بھی ہوش میں نہ آیا تو کیا مزہ
پہنچ کر قبر میں بھی فتنوں سے باز نہ آیا تو کیا مزہ
رکھ کے داڑھی عیب چھپایا تو کیا مزہ
رگڑ کر ماتھا مُلاّ کہلایا تو کیا مزہ
کھا کے زہر گر پچھتایا تو کیا مزہ
لٹا کے جوانی خدا یاد آیا تو کیا مزہ
ہو گیا جب دل دو ٹکڑے اس کا جڑ جانا کیا
ہو جائے چھید گر بوتل میں اس کا بھر جانا کیا
ہو گیا بند جب در توبہ پھر دامن پھیلانا کیا
کیا کچھ نہ عمل خالی ہاتھ ادھر جانا کیا


ادھر تو جاتے ہیں اعمال اپنے بے عملوں کی جا نہیں
پاتے ہیں سزا اعمال گندے کس کو یہ پتہ نہیں
پڑھ کے کلمہ بن بیٹھے امتی امتی ہونا سستا نہیں
خواب میں بھی نہ ہو سکے دیدار مصطفی امتی بنتا نہیں
فرض ہے تیرا پیارے محمدؐ کو اک بار تو دیکھ
علم سے دیکھ عمل سے دیکھ سوتے یا بیدار دیکھ
سمجھ میں نہ آئے گر یہ بات کوئی کامل شب بیدار دیکھ
پڑھ علم دیدار اس سے پھر دیدار ہی دیدار دیکھ
آزمایا نہ جس نے پیر کو خود ہی آزمایا گیا
ملا گر نفسی مرشد ایمان کا صفایا گیا
رکھ کے تکیہ مرشد پر بیٹھے رہے وقت سارا ضائع گیا
کہ ہوتے ہیں جن کے خام مرشد ابلیس کے ہاتھ آیا گیا


ہو گئی کمر کبڑی تیری درجہ عبادت نہ ملا
مارے گئے اندھیرے میں درجہ شہادت نہ ملا
بھٹکتے رہے دربدر کمرہِ عدالت نہ ملا
ملا نہ رستہ ہرگز کہ باحضور باارادت نہ ملا
شریعت ہے فرضِ اوّلین اسی سے زندگی بنتی ہے
پھر شریعت تیل ہے طریقت کا جس سے گاڑی چلتی ہے
اسی کے دم سے حقیقت و معرفت کی رحمت برستی ہے
کہتے ہیں جنیدؒ بے شرع پر ابلیس کی جھلک ٹپکتی ہے
معافی ہے شریعت کی اس وقت جب دیدارِ اللہ ہو جائے
اسکی ہر بات اللہ ہر نظر اللہ گھربار اللہ ہو جائے
نظر سے بن جائے مٹی سونا زبان کھولے انتظار اللہ ہو جائے
ہوتا ہے پارس وہی جس کو رگڑے خریدار اللہ ہو جائے
ہوتا ہے وہی دنیا میں نائب اللہ کا چاہے شاہ کو گدا کر دے
جہاں بھی چاہے بُلالے ملائکوں کو چاہے جس کو تباہ کر دے
اسے کیا اہمیت نیک و بد کی چاہے جس کو باخدا کر دے
اسے کیا ضرورت سجدے کی جو روبرو جا کے سجدہ کر دے


یہ تو وہ صدی ہے جہلا بھی علماء بنے بیٹھے ہیں
جسم پر چیتھڑے چل رہی جوئیں اور باخدا بنے بیٹھے ہیں
بہت ہیں ایسے بھی عالمِ سُو جو اولیاءبنے بیٹھے ہیں
یہ تو وہی فرعون ہیں جو خدا بنے بیٹھے ہیں
نہ اٹھا پردہ کہ یہی دورِ یزید ہے
سنبھل جائے یہ مسلم تجھے کیسے امید ہے
پا جائے اسرارِ حق اسکی عقل سے بعید ہے
دلوں پہ لگا کے قفل نفس کا مرید ہے
حُبِّ دنیا لذّت دنیا نفس کی یہ غذا ہے
مقام ہے اس کا عالم ناسوت جنّات سے اس کا رشتہ ہے
نورِ قرآن نورِ عرفان یہ دل کی غذا ہے
مقام ہے اس کا عالم ملکوت فرشتوں سے اس کا تعلقہ ہے
گر دل کو برباد کیا تو نفس کو شاد کیا
گر نفس کو برباد کیا تو دل کو آباد کیا
پھُولا پھَالا دل تو روح کو پھر پاک کیا
روح پہنچی عالم جبروت میں جب سینہ چاک کیا


دلوں میں شیطان بسا کے پھر بھی ہے دعویٰ ایمان اللہ
ہو رہی دخترفروشی اُدھر ِادھر سہارا قرآن اللہ
چمگادڑ بنے بیٹھے ہیں پھر بھی تکیہ کہ ہے رحمن اللہ
دنیا کو دھوکہ خدا کو بھی سمجھے ہے شاید انجان اللہ
تکیہ ہے اس کی رحمانی کا نادانوں کو یہ پتہ نہیں
وہ تو قہار ہی قہار ہے جب تک اس کے آگے جھکا نہیں
تجھے کیا خبر اس کی غفّاری کی جب اس راہ پہ چلا نہیں
جائے تو جنت میں یا جہنم میں اسے کچھ پرواہ نہیں
جب منہ موڑا ادھر سے سچ کہا دہریوں نے خدا نہیں
کیسا سمیع و بصیر ہے کچھ بھی سنتا نہیں
قریب ہے شاہرگ کے اسے کچھ بھی پتہ نہیں
بیزار ہوئے محمد کاش تو نے پایا وہ رستہ نہیں
گر جھک جائے تو ادھر تجھ میں اور مجھ میں پردہ کیا
پہنچا جب میرے نشیمن میں پھر میں کیا اور خدا کیا
فاذکرونی اذکرکم پھر تجھے اور تمنّا کیا
تب ہی پوچھے گا خدا اے بندے تیری رضا کیا


اے بندے سمجھ تو کیوں ہوا دنیا میں ظہور تیرا
تو وہ عظیم تر ہے خدا بھی ہوا مشکور تیرا
عش عش کرتے ہیں کروّبیاں دیکھتے ہیں جب شکستہ صدور تیرا
فخر ہوتا ہے اللہ کو بنتا ہے جب جسم سراپا نور تیرا
کہتے ہیں پھر اللہ اے ملائیکو میرے بندے کی شان دیکھو
ہوا تھا جسں پہ انکار سجدہ اب اس کا ایمان دیکھو
جنبش پہ ہے جس کا دل ایک سرا اِدھر ایک لامکاں دیکھو
ناز ہے تم کو بھی عبادت کا مگر عبادت قلب انسان دیکھو
کاش تو شیطان تو نہ تھا جو شیطان ہوا
آیا اللہ کے امتحانوں میں تو بے ایمان ہوا
پڑا ہوس دنیا کے چکر میں تو بے عرفان ہوا
تو وہ چمکتا ہوا ستارہ تھا جو بے نشان ہوا


( نوٹ: مشکور سریانی میں دوست کو بولتے ہیں)

PAGE 4


گیا تھا بیرون ممالک کہ آکے بنگلے بنائیں گے
بڑی محنت سے کام کیا ورنہ سبھی طعنے بنائیں گے
گئے گر خالی ہاتھ اُدھر نبی کو کیا منہ دکھائیں گے
مانگیں گے وہ تحفہ کچھ ہم کےسے نظریں اٹھائیں گے
پچھتائیں گے پھر وہ بھی جو تھے نہ پچھتانے والے
ہو گی ان کو بھی ندامت تھے جو حلوے دنبے کھانے والے
پوچھا جائے گا ان سے بھی تھے جو بے تاج حکومت چلانے والے
ہوئی گر سفارش اعمالوں کے سوا ہوں گے حق پر سر کٹانے والے
اُدھر حسب نسب چلتا نہیں اُدھر تو میزان ہے
اُدھر سیّد قریشی کی کیا پرواہ جو تارکِ قرآن ہے
اہل حرفہ اہل سیاست سبھی کے لئے اک فرمان ہے
تھا جو بھی اس کی یاد سے غافل وہی حیوان ہے
ہوا حیوان جب تو زنجیر لازم ہو گئی
نہ دیکھا گوشت و پوست کو تکبیر لازم ہو گئی
نہ دیکھا اس کا رتبہ شاہی تقدیر لازم ہو گئی
بچا نہ سکے گا کوئی جب تحریر لازم ہو گئی
٭٭٭٭٭٭٭


چھوڑ کے خیال دنیا کا دنیا والوں سے جی بہلانا کیا
پڑیں جہاں ایمان پر چھینٹیں اس کوچے سے گزر جانا کیا
ملا نہ کوئی محرم دل انجانوں کو حال سنانا کیا
مر گئے زندگی میں ایک بار اب جینا کیا مر جانا کیا
وہ قلب ہی نہ رہا تن میں پھر طلعت کیا بیگانہ کیا
ہر دم رہے زبان پہ تو ہی تو کملا کیا دیوانہ کیا
جل رہے ہیں جب عشق میں ہم کو اور ستانا کیا
دے کر دیدار دیکھ ہوتی ہے شمع کیا پروانہ کیا
٭٭٭٭٭٭٭


اوّل سے ہی اللہ ہم کو آزماتا رہا
اور خلقت میں بھی نشانہ ملامت بناتا رہا
کیا کوئی بھی دھندا دھندے کو بھی رُلاتا رہا
کیا خبر تھی ہم میں صبر و تحمّل بناتا رہا
دیں اتنی ٹھوکریں کہ زندگی سے بیزار ہوئے
چھوڑ کے بال بچّے اس دنیا سے فرار ہوئے
بنایا بسیرا پھر پہاڑوں میں اور تلاش یار ہوئے
بہت ہی مغلوب تھے ہم جو آج شکن حصار ہوئے
٭٭٭٭٭٭٭


کر لے جب بھی توبہ وہ منظور ہوتی ہے
بندہ بشر ہے جس سے غلطی ضرور ہوتی ہے
کہتے ہیں موسٰیؑ اللہ کو وہی عبادت محبوب ہوتی ہے
جس میں گناہ گاروں کی گریہ زاری خوب ہوتی ہے
شکر ہے پروردگار تیرا اس عاصی پر فضل کیا
نکالا دنیا کے کیچڑ سے آشیانہ بہ جبل کیا
ہدایت دے کر قرآن و عرفان کی روانہ بہ منزل کیا
وہ بھی تو ہیں بے نصیب جن کے دلوں کو تو نے قفل کیا
قفلوں والے کریں گے کیسے یقین ہم پر
کہ ہو چکا ہے اتنا مہربان رب العالمین ہم پر


کھول چکا ہے اسرار حور و نازنین ہم پر
کہ بس رہا ہے جُسّہ توفیقِ الٰہی زمین ہم پر
حق و نور کی روشنی جب آنکھوں میں آئی
چودہ طبق نظر آئے جیسے اک رائی
اک سے اک کا فاصلہ اتنا چھوٹی سی کھائی
واہ رے نادان نادانوں کو عجب کہانی سنائی


سن اے انجان جس طرح زر و مال کی زکوٰة ہوتی ہے
عامل کامل پر بھی واجب ےہ بات ہوتی ہے
حق کرےں ادا دنےا مےں گمنام ےہ تو مشکلات ہوتی ہے
برزخ سے آکر کرتے ہیں حق ادا جن پر حاضرات ہوتی ہے
پڑھ کے کلام ہمارا شائد تو بھی ہوش میں آئے
یہ بھی ممکن ہے جو ہوش ہے اس سے بھی جائے
اس کو سمجھیں گے عام کیا خاص کی بھی سمجھ میں نہ آئے
ابھی بھی چھپایا ہے بہت کچھ طعنہ ¿ خود فروشی نہ مل جائے
کھولا ہے راز اس لئے حق و باطل کی تمیز کر
کھول آنکھیں اپنی اپنے اندر پیدا یہ چیز کر
یہی ہے مسلم کی وراثت کیوں نہ اس کو عزیز کر
نہ رکھ خیال عالمانہ عمل و یقین بر قلم ناچیز کر
ڈھونڈ کسی پارس کو کہ تو بھی سونا بن جائے
ایسا نہ ہو کہ زندگی تیری رونا بن جائے
گیا وقت یہ بھی پھر کانٹوں کا نہ بچھونا بن جائے
ڈر ہے یہ بھی کسی ناقص کا نہ کھلونا بن جائے


دے رہے ہیں لعنتیں یاران نبی کو ہیں یہ بھی پیر والے
رابعہ بصریؒ پر بھی کستے ہیں آوازیں کچھ شیطانی زنجیر والے
کچھ غوث پاکؒ کو نہیں مانتے ہیں یہ بھی دید و شنید والے
مومن و ولی بنے بیٹھے ہیں یہی ہیں دراصل یزید والے
بھنگ چرس افیون ان کا ایمان ہے
راہبر ہے وہ بھی فارغ سنت و قرآن ہے
حضرت علیؓ کو اﷲ بنا بیٹھے یہی ان کا ذکر زبان ہے
منافق ہے ان کی نظروں میں باقی جو بھی مسلمان ہے
کچھ احمدی بھی ہیں پرویزی بھی نہ جانے کیا کیا
جو بھی بنتا ہے فرقہ وہی ہوتا ہے ُسنت سے جدا
ان کی چال نئی جماعت نئی اور انداز نیا
نہ سمجھ سکے گا انجان تو کون ہے کیا اور کون کیا
ہم نے تفصیل لکھ دی ان کو آزمانے کے بعد
پائی ہم نے یہ راہ گھربار لٹانے کے بعد
تو بھی پالے گا کچھ نہ کچھ ٹھوکریں کھانے کے بعد
سیکھا نہ گر یہ سبق پچھتائے گا مر جانے کے بعد


یہ راز چھپا کر کریں گے کیا اب تو دنیا فانی ہے
انتظار تھا جس قیامت کا عنقریب آنی ہے
دجال و رجال پیدا ہو چکے یہ بھی اک نشانی ہے
ظاہر ہونے والا ہے مہدیؑ بھی یہی راز سلطانی ہے
پڑھ کر علم عمل نہ کیا تو عالمیت کیا
کر کے عمل پارس نہ پکڑا تو قابلیت کیا
مل گئے دونوں آزمایا نہ تو صلاحیت کیا
پا نہ سکا پھر بھی خدا کو تیری اصلیت کیا
گر چالیس سال عمر ہوئی ابلیس نے بھی منہ موڑ دیا
پوچھا ابلیس سے کیا قصور کہ تو نے دل توڑ دیا
کہنے لگا کیا ضرورت میری تجھے ہی ابلیس بنا کے چھوڑ دیا
چل نہ سکے گا عمل تجھ پر کہ سارا عمل نچوڑ دیا
لے کر بھید میرا گر کچھ نہ پایا دعویٰ نہ رکھنا مسلمانی کا
ڈھانچہ تو ہے انسانی تیرا روح نہ پایا انسانی کا
جھکڑا ہے زنجیروں سے جسم تیرا غلبہ ہے جس پر شیطانی کا
کیا عجب دل پر بھی لگا ہو قفل تیرے قہر سلطانی کا


نماز بھی پڑھا دی مولانا نے قرآن پڑھنا بھی سکھا دیا
کلمے بھی پڑھائے حدیثیں بھی بہت کچھ مغز میں بٹھا دیا
بتا نہ سکا دل کا رستہ باقی سب کچھ پڑھا دیا
یہی ایک خامی تھی ابلیس نے سب کچھ جلا دیا
کرتا ہے ذکر زبان سے پڑتا ہے جب در ریاضت آدمی
پڑھتا ہے نفل و تہجد آتا ہے پھر در نزاکت آدمی
پکڑتا ہے خناس دل کو اثر نہیں کرتی عبادت آدمی
ہنستا ہے پاس کھڑا ابلیس دیکھ کر حالت آدمی
کر رہا ہے اﷲ اﷲ دل کو کچھ خبر نہیں
ماتھا بھی گھس گیا سجدوں میں مگر کچھ اثر نہیں
ہو گئے پھر باغی اتنی محنت سے بھی پاک ہوا صدر نہیں
یہ نہ سمجھ سکے دل پہنچتا ہے عرش پر بشر نہیں


چھوڑ عبادت ایسی پہلے دل کو صاف کر
لگا کے ٹیکہ نوری نفس کو بھی پاک کر
لکھ دل پر اسم اﷲ انگلی کو قلم خیال کر
آئے جب نظر قلب پہ اسم اﷲ پھر عبادت بے باک کر
پھر ناف پر بھی تصور سے اسم اﷲ جما
کر کے مشق یہ نفس کو بھی مطمئنہ بنا
پھر ہاتھوں پر لکھ ماتھے پر بھی تصور بنا
آنکھوں پہ لکھ کانوں پہ لکھ ناک کو بھی اس میں سما
لکھا جائے گا اک دن تصور سے یہ ضرور
ہو جائے گا ذکر قلب بھی جاری گر کر لے منظور
اسی سے ہوگا حاصل تجھے ذاتی نور
یہی ہے وسیلہ ولیوں کا یہی راہ حضورؐ


آخر جب پھینک کر آئیں گے گھر والے قبر میں تجھ کو
آئیں گے فرشتے سوال کرنے ہوں گے ششدر دیکھ کر تجھ کو
دیکھ کر تاباں اسم اﷲ ماتھے پر دیں گے صدا تجھ کو
جرا ¿ت نہیں ہے کچھ پوچھنے کی پھر شاید دے تو دُعا مجھ کو
ہوتا ہے مومن ہوتا ہے جب ذکر قلب جاری
اتنا مشکل تو نہیں ہے گر تو سمجھ نہ بیٹھے بھاری
کرے گر مشق اس کی ثابت ہو تجھ پہ بات ہماری
وگرنہ اے پیارے رگڑتا رہ بے راہر و عمر ساری
آیا جب مسلم کے گھر میں تو اک انسان ہوا
چلا جب دین پر دل سے تو وہ مسلمان ہوا
مومن بنا جب تب اس پہ واجب قرآن ہوا
ورنہ نہیں ہے خبر کچھ یزید ہوا کہ ہامان ہوا


ابلیس سے بچائے مشکل نہیں مگر آدمی ہے امتحان کا
مقابلہ ہے اس کا فرشتوں سے قصہ نہیں یہ زبان کا
اس کا ڈھانچہ اک بوتل ہے بند ہے علم جس میں کون و مکاں کا
بند ہیں اس میں نو جُسّے سات لطیفے بھید ہے یہ قرآن کا
یہ جُسّے جسم میں تیرے ہیں پیوستہ اور روحیں بھی پیوستہ
دیکھ نہ سکے تو ان کو یہی ہے تجھ پہ شیطان کا پردہ
ان کی تربیت تیرے ذمہ ورنہ تو بھی جہل وہ بھی جہلا
تربیت سے نکلتے ہیں جب وجود سے تب ہوتا ہے آدمی باخدا
ایک تو لطیفہ قلب ہے جو نکلے تو عرش سے جا ٹکرائے
دوسرا ہے جُسہّ نفس وہ بھی آدمی کو طیر سیر کرائے
لطیفہ اناّ و خفی بھی ہیں میلوں آدمیوں سے بات کرائے
ملے جب اتنے غیبی لشکر تب ہی آدمی اشرف البشر کہلائے


آ جائے بشر گر تکبیر میں اس کو سمجھا سکتا ہے کون
آ جائے گر ضد پہ اس کو بچا سکتا ہے کون
ہوجائے گر نفس کا قیدی تواس کو چھڑا سکتا ہے کون
مگر ہو جائے گر اللہ کا تو اس کو مٹا سکتا ہے کون
تو وہ عظیم ہے کہ ےہ کون و مکاں بھی تیرے ہوئے
ہوا جب کوہ و پیما زمین و آسماں بھی تیرے ہوئے
پھر بنا گر شہباز لامکانی چودہ جہاں بھی تیرے ہوئے
پڑی دعوت گر زبان قلب سے حوریں کیا کروبیاں بھی تیرے ہوئے
بتاؤں کیا زبان قلب ہے کیا یہ تو لمبا ساز ہے
کیا جانے تو تیرے اس ڈھانچے میں کیا کیا راز ہے
دعوت ہے کیا روحوں اور ملائکوں کو بلانے کی آواز ہے
ہوتا ہے جب عمل دعوت میں کامل بندہ نہیں بندہ نواز ہے
نکلتے ہیں جب جُسّے جسم سے ڈھونڈتے ہیں اپنی تربیت گاہ
سالک سے ہمکلام بھی ہوتے ہیں جس طرح سالک کی شکل و شبہاہ
باطن میں ان کے سکول ہیں ان کی تعلیم جدا زبان جدا
ہوتا ہے کوئی فرش پر عرش پر کوئی کعبے میں کوئی روئے خدا


یہ درجہ پایا تو نے گر مقدر سے پائے گا
کری کوشش گر کچھ نہ کچھ تو ہاتھ آئے گا
مارا گیا اس راہ میں درجہ شہادت تو پائے گا
ورنہ اے بندے وہاں جا کر کیسے گردن اٹھائے گا
اُدھر یہ تو پوچھتے نہیں یہ کرکٹ کا کھلاڑی تھا
کرنل تھا جرنل تھا یا وزن اس کا بھاری تھا
ادیب تھا شاعر تھا مُلّا تھا یا بخاری تھا
دیکھیں گے یہی کتنا نور اس کا جاری تھا
نفس کی تو پرورش کرتا رہا جو شیطان لعین تھا
پایا نہ کچھ قرآن سے جو تیرا فرض اوّلین تھا
فکر مال چکر ذال میں الجھا رہا یہ تو امتحان یقین تھا
اب ڈھونڈتا ہے پروانہ شفاعت کیا تو نہ مسلمین تھا


مسجدوں کی جگہ مے خانے بنائے
لگا کر عَلم زنا خانے بنائے
لٹکا کر تسبیحاں چہرے معصومانے بنائے
بنے اولیاءکہ کھانے پینے کے بہانے بنائے
یہ دھوکہ اﷲ سے نہیں خود کو دھوکہ دیا
واہ رہے بندے نفس کی خاطر تو نے کیا کچھ کیا
٭٭٭٭٭٭٭


پوچھا موسٰیؑ نے اﷲ سے تجھے کوئی پائے تو پائے کہاں
میں آتا ہوں طور پر وہ جائے تو جائے کہاں
گر ہو کوئی مشرق میں پیدا تو وہ طور بنائے کہاں
آئی آواز ہوتا ہوں ذاکر کے قلب میں زمیں پہ ہو یا آسماں
پھر کہا اﷲ نے میں ناراض ہوں تجھ سے اے موسٰیؑ
میں کل بیمار تھا تو دیکھنے تک نہ آیا
کہا موسٰیؑ نے ہوتا ہے بیمار تو یہ انداز کیا راز کیا
بیمار تھا تیرے محلے میں ذاکر قلبی کیا میں اس میں نہ تھا
پھر کہا موسٰیؑ نے ِگھس گئے پاؤں میرے اب تو جلوہ دکھا
یہ راز نہ کھل سکے گا محمد اور اس کی اُمت کے سوا
آئے پھر ضد پہ موسٰیؑ وہ بھی انسان ہوں گے میری طرح
پڑی جب جھلک نور کی موسٰیؑ جلے طور جلا
کتنا خوش نصیب ہے تو کہ امت محمد سے ہوا
کر دیدار خواب میں مراقبے میں یا رُوبرو یہ درجہ تجھے ملا


کل نبی و مرسل ترستے رہے زندگی میں یہ راز نہ ملا
یہ تو وہی راز ہے جس کا میں نے کھل کر ذکر کیا
کہا نبی پاک نے سید پشت حضور سے نکلا
گر کوئی عالم باعمل نکلا تو میرے سینہ ظہور سے نکلا
پایا کسی نے مقام فقر میرے اور اﷲ کے نور سے نکلا
گر ہوا غرق راہ حق میں وہ میرے منشور سے نکلا
کر کے محنت کچھ نہ ملا وہ بھی میری نظور سے نکلا
آیا پاک و صاف ہو کر ادھر وہی راہ صدور سے نکلا
چلا جو بھی اﷲ کے عشق میں وہ بھی طور سے نکلا
شرط نہیں ہے کچھ کعبے سے نکلا یا دور سے نکلا


کرے گا جب تصور دل پر اسم اﷲ تو زمین ہموار ہو گی
لکھے گا کاتب جب نوری حروف سے پھر کھیتی تیار ہو گی
پھر ڈالا گر مرشد نے نطفہ عجب بہار ہو گی
اس نطفے سے بنے گا طفل نوری جسکی پرورش زانوار ہو گی
نکلے گا جب بطن باطن سے عرصہ بعد یہ طفل نوری
اسی کو ہو گی حاصل پھر مجلس حضوری
ہو کے حضرت علیؓ کے حوالے کرے گا تعلیم پوری
پا کے تعلیم پھر ہو گی اس کی غوثی یا سلطانی منظوری
ملتا ہے لاکھوں میں ایک کو ہوتا ہے ان لطیفوں کے علاوہ
ہوتا ہے بیابان میں شیر باطنی گر اڑا تو شہباز کہلایا
خوراک ہے اس کی ذکر و فکر کنگرہ عرش پر آشیانہ بنایا
اس میں ہوتی ہے طاقت اتنی جلے بغیر ہی روبرو ہو آیا


نظر آتا ہے کبھی یہ سالک کی صورت میں کبھی مرشد کی صورت میں
ہوتی ہے اس کی صورت جدا دکھاتا ہے جو بوقت ضرورت میں
سمجھ نہ بیٹھنا کہ تجھ سے کوئی خواب کہہ رہا ہوں
یا نشہ پی کر تجھ سے بے حساب کہہ رہا ہوں
کہانی ہے کسی زمانے کی یا قصہ کتاب کہہ رہا ہوں
جو بھی کہہ رہا ہوں نصاب در نصاب کہہ رہا ہوں
مرتا ہے آدمی چلی جاتی ہے روح عالم برزخ تک
یہی جُسّے ہو کے آدمی رہتے ہیں قبر تک
ناسوتیوں کے جُسّے مر جاتے ہیں عرصہ کچھ خبر تک
مرتے نہیں اﷲ والوں کے جُسّے حشر تک
وہ پھر قبروں سے نکل کر دنیا والوں کی امداد کرتے ہیں
پائیں کسی کو مصیبت میں تو اﷲ سے فریاد کرتے ہیں
کر رہے ہیں کام جُسّے ولیوں کے لوگ ولیوں کو یاد کرتے ہیں
آ جاتی ہے روح ولیوں کی بھی جب جُسّوں کو ارشاد کرتے ہیں


ایک عالم آنے والی ایک ہے عالم جانے والی روحوں کا
جُسّوں کو ملتی ہے قبر میں روحوں کو ملتی ہے برزخ میں سزا
پکڑے گئے کہ وہ بھی تھے روحانی کے مشیر و آشنا
اس کو کون پوچھے تھا ڈھانچہ ہڈیوں کا جو گُھل گیا
ملا تھا قطرہ نور کا کر کے ترقی لہر بن گیا
آئی طغیانی ٹکرایا بحر سے اور بحر بن گیا
نہ رہی تمیز من و تن کی دل تھا جو دہر بن گیا
بس گیا علم اس پہ اتنا کہ شہر بن گیا
اس نقطہ کی تلاش میں کتنے سکندر عمریں گنوا بیٹھے
خوش نصیبی میں تیری شک کیا گھر بیٹھے ہی یہ راز پا بیٹھے
کہا تھا خاقانی نے جب ہم بھی تیس سال رلا بیٹھے
ہوئے جب یکدم باخدا تخت سلیمانی بھی ٹھکرا بیٹھے


یہی سوچ کر اﷲ نے آدمی بنایا تھا
اسی بے وفا کو پھر سجدہ بھی کرایا تھا
اسی کے لئے لوح و قلم بنایا تھا
مگر اس بے نصیب نے خود کو بھی نہ آزمایا تھا
نماز میں آئے گا نظر جب قلب پہ لکھا اسم اﷲ
بھول جائے گا تو اس وقت دنیا و مافیہا کو قسم اﷲ
کتنے دیئے سجدے رہے گا نہ یاد پا کے رسم اﷲ
پھر ہی ہوگی پرواز کی تیاری کر کے آغاز بسم اﷲ
ملے گا پھر ثبوت تجھے تیری عبادت کا قدم بہ قدم
دیکھ سکے گا پھر تو نور کی لہریں دم بہ دم
عجب نہیں کُھل جائے راز مخفی بھی تجھ پہ پیہم
گر ہوش میں رہا پھر یاد آئیں گے تجھ کو ہم
بتایا ہے جو کچھ تجھ کو اس کو عمل اکسیر کہتے ہیں
پڑھتا ہے جب دعوت کوئی اس کو عمل تکسیر کہتے ہیں
آجائے رجعت میں اکسیر و تکسیر سے اس کو بے تقصیر کہتے ہیں
گر نہ پایا کچھ ان سے اس کو بے تقدیر کہتے ہیں


پڑا جس پہ لعنت کا طوق اسے ہی عزازیل کہتے ہیں
پھر خاکی کیا ناری کیا اسے ہی ذلیل کہتے ہیں
وہ صوفی کیا مفتی کیا اسے ہی بے دلیل کہتے ہیں
نکلا پھر زبان سے کچھ لفظ اسے ہی قال و قیل کہتے ہیں
دیکھے سزا گر سِجیّن میں روحوں کی زندگی سے بیزار ہو جائے
پھٹ جائے دل تیرا خوف سے شاید مغز بھی بیکار ہو جائے
کُھلے راز تجھ پہ آدمیت کا جب یہ دیدار ہو جائے
ڈھونڈ کسی کامل کو کر دیدار شاید پھر تو ہوشیار ہو جائے
بھٹک کے راہ پہ آیا وہ بھی انسان ہوا
ورنہ جانور ہے جو جمعیت پریشان ہوا
دیکھی نہ جس نے راہ قبور وہی انجان ہوا
قبر بھی کرے نہ اسے قبول جو بے اشنان ہوا


روح بھی ایک دل بھی ایک نہیں فرق کچھ انسانوں میں
فرق ہے گر ان کی زبانوں میں اور ایمانوں میں
چلا جو ایمان پر پہنچا وہی خفیہ خزانوں میں
ورنہ اے بندے تو نہ انسانوں میں نہ حیوانوں میں
ہوتا ہے مقام تیرا فرشتوں سے اونچا کہ وہ ناز کریں
کبھی ہوتا ہے مقام تیرا شیاطین سے بھی نیچا کہ وہ عار کریں
کری جس سے شیطان نے بھی نفرت اسے کس نام سے پکار کریں
پھر بھی دعویٰ امتی کا اُف تیری عقل کیسے بیدار کریں
انسان افضل کتا ارذل گر کوئی نہ حقیر ہوتا
ہوتا گر مقابلہ کتے سے تیرا ہر کتا قطمیر ہوتا
دیکھتا گر کتے کو جنت میں تو کتنا شرم گیر ہوتا
سچ بتا تو بہتر ہوتا یا کتا بے نظیر ہوتا
ایسا کوئی کتا ہی نہیں جو مالک کی حفاظت نہ کرے
انسان ہی ہے سرکش جو خالق کی عبادت نہ کرے
نہ جھکائے سر کو قدموں میں نفس کو بھی ہدایت نہ کرے
پھر بھی گلہ ہم سے تیرا کہ ہماری شکایت نہ کرے


سورج چڑھا تو نکلا پیٹ کے جنجال میں
گھر آیا تو پھنسا بیوی کے جال میں
سویا تو وہ بھی بچوں کے خیال میں
عمر یوں ہی پہنچ گئی ستّر سال میں
ہوا جب کام سے نِکمّا لیا دین کا آسرا
اب کہاں ہے خریدار تیرا بیٹھا جو حسن لٹا
بے شک کر ناز نخرے اور زلفوں کو سجا
وقت تھا جو تیرا وہ تو بیٹھا گنوا
کر کے ذکر چار دن بن گیا زنجہانی ہے
دھوکہ ہے تیری عقل کا جو ہو گئی پرانی ہے
اب کچھ توقع اﷲ سے یہ تیری نادانی ہے
قابل تو نہیں گر بخش دے اس کی مہربانی ہے
ڈوبنے لگا فرعون جب وہ بھی ایمان لے آیا تھا
کر کے دعویٰ خدائی وہ بھی پچھتایا تھا
کر لی توبہ آخر میں وہ وقت ہاتھ نہ آیا تھا
جس وقت کا قدرت نے بندے سے وعدہ فرمایا تھا


ہر شجر با ثمر نہیں ہے ہر بوٹی با اثر نہیں ہے
ہر طفل بہ مکتب نہیں ہے ہر بندہ باشر نہیں ہے
ہر پتھر اصل نہیں ہے ہر فقر ِعطر نہیں ہے
فرق ہے تجھ میں سارا کہ تیری نظر نہیں ہے
شیشے کو تو ہیرا بنائے تو قصور کس کا
ان آنکھوں کا علاج نہ کرائے تو قصور کس کا
میری ان باتوں پہ یقین نہ آئے تو قصور کس کا
خود بھی کعبہ ڈھونڈنے نہ جائے تو قصور کس کا
٭٭٭٭٭٭٭


رکھ کے کفن سر پہ غاروں میں گھر بنائے بیٹھے ہیں
نہ چھیڑ ساقی ہم کو ہم تو جگر کھائے بیٹھے ہیں
نہیں ہے خوف مرنے کا اِدھر ہی قبر بنائے بیٹھے ہیں
رکھ کے تکیہ اﷲ پر صبر میں آئے بیٹھے ہیں
نہ سمجھ ہم کو شرابی ہم تو زہر کھائے بیٹھے ہیں
رکھ کر خبر زمانے کی بھی اپنا آپ گنوائے بیٹھے ہیں
اس نازنین کا بھی اﷲ حافظ جو ہمارے حق میں آئے بیٹھے ہیں
قسم ہے رب تیری تیری خاطر سب کچھ بھلائے بیٹھے ہیں
خبر نہیں ہے ان کو ہم کیا راز پائے بیٹھے ہیں
کہاں ہیں کیا ہیں اور کیا حال بنائے بیٹھے ہیں
ہو چکا ہو گا ادھر ماتم میرا یہی سمجھ میں آئے بیٹھے ہیں
کیا خبر ان کو تیرے عشق کی قسم کھائے بیٹھے ہیں
لٹا ہی دی جوانی ہم نے آخر تیرے جبلوں میں
نفس کو مارا ہوس کو بھی ان کھبلوں میں
تھی جتنی بھی طاقت آزما دی ان صدموں میں
پھر بھی شبہ ہے تجھ کو میرے ان قدموں میں


کر کے تمام یہ نقطہ عثمان مروندیؒ بھی شہباز ہوئے
شاہ لطیفؒ بھی بری امامؒ بنے باھوؒ بھی پرواز ہوئے
کر کے آغاز ہم بھی یہ دھندا واقف راز ہوئے
رہا تھا گلہ قسمت کا ہم کو جو آج سرفراز ہوئے
ناز تو ہے مگر منتظر دور و افتاد کے قابل نہ تھے
آ گئے اس کی قید میں جس صیاد کے قابل نہ تھے
چھوڑ آئے یتیم جن کو وہ بیداد کے قابل نہ تھے
رل گئیں وہ معصوم جانیں جو فریاد کے قابل نہ تھے
ڈھل گئے وہ سائے کنول کے جو برباد کے قابل نہ تھے
کیا ہے شکوہ ہم سے ہم ان کی یاد کے قابل نہ تھے
قابل نہ تھے ان کی زلفوں کے ہار و سنگار کے قابل نہ تھے
ڈالا ان کو اس پھاہی میں جس دیوار کے قابل نہ تھے
دن رات بہتے ہوں گے آنسو وہ زار و قطار کے قابل نہ تھے
کاش وہ بے داغ دل فراق یار کے قابل نہ تھے


اِدھر تو سرفراز ہے اُدھر سارا جہاں لٹ گیا
تھیں جن کو وابستہ ہم سے امیدیں انکا سارا ارمان لٹ گیا
لٹ گئی ان کی بھی جوانی اور زمین و آسمان لٹ گیا
تھیں ان کے دل میں بھی تمنائیں بہت جن کا کارواں لٹ گیا
یاد نہ کر ماضی کو اے شکستہ دل جب نام و نشان مٹ گیا
کیا قصہ گل یاسمین کا جب وہ گلستان مٹ گیا
ملے گی تجھے کہاں سے وہ خُو جب وہ پرستان لٹ گیا
کیا ہے تعلقہ انسان سے انسان کا جب انسان مٹ گیا
٭٭٭٭٭٭

PAGE 5


حقیقت کا نظارہ ان جبلوں اور بیابانوں میں ہے
جو دنیا کے مکتبوں میں ہے نہ عبادت خانوں میں ہے
اِدھر کائنات بھی ڈھلتی کارخانوں میں ہے
نہ ملا ایسا سکون کبھی جو ان زندانوں میں ہے
رہ کے بھوکے و ننگے خوش ہیں اسیری پر
سوتے ہیں پتھروں پر کہ مست ہیں فقیری پر
کھاتی ہے ترس دنیا دیکھ کے حال ظہیری پر
ہمیں تو رشک ہے ہو گئے قربان راہ شبیریؓ پر
راضی ہو نہ ہو ہم نے تو اپنا خون بہا دیا
جس کا گلہ تھا تجھے اس پہ ہم نے سر کٹا دیا
چیرا سینے کو انگلیوں سے اور تیرا کلمہ جما دیا
کر کے ٹکرے ٹکرے دل کے اس پہ کعبہ بسا دیا
مان نہ احسان تو ہم نے تو احسان چڑھا دیا
کہ جھکا ہوا تھا سر تیرے محبوب کا جو بلند کرا دیا


خود کو کسی کے ذمہ کر تیرا ذمہ اٹھائے کوئی
بن کے ذمہ دار تیرا تجھے رستہ دکھائے کوئی
کاش میری ان باتوں کو بھی آزمائے کوئی
دین دنیا میں پھر ہرگز نہ دھوکہ کھائے کوئی
ہر عالم بے عمل نہیں ہے ہر بندہ بے عقل نہیں ہے
لٹکا کر داڑھیاں پھر رہے ہیں کئی ہر کوئی اصل نہیں ہے
پردے میں گھومتے ہیں شیطان بہت ہر کوئی بے شکل نہیں ہے
مگر آ جائے کچھ اس کی عقل میں یہ وہ نسل نہیں ہے
یہ تو وہ عمل ہے عاصیوں کو بھی مجیب مل جاتے ہیں
ہوتے ہیں جو بے نصیب انہیں بھی نصیب مل جاتے ہیں
نہیں ہے فرق خواندہ ناخواندگی کا کہ خطیب مل جاتے ہیں
ڈھونڈتی ہے دنیا جن کو ستاروں میں قریب مل جاتے ہیں
پارس بھی اسی میں کیمیا بھی اسی میں
وفا بھی حیا بھی شفا بھی اسی میں
رضا بھی بقا بھی لقا بھی اسی میں
خدا کی قسم خدا بھی اسی میں


کر پرواز بسم اﷲ کہ تو طائر کمال بن جائے
مل جائیں گے صیاد کئی جب طائر حلال بن جائے
چل جائے گی تکبیر زکوٰة کی گر تو جمال بن جائے
چڑھے نہ سورج جس کی خاطر شاید وہ بلالؓ بن جائے
نکل ناقصوں کے چکر سے کہ تو بھی نہ انگار بن جائے
رہ کے نزد خرمن شُعلہ ¿ بجلی کا نہ شکار بن جائے
دیکھ کے انداز جھوٹے کہیں نہ ان کا ہتھیار بن جائے
عبرت لے کہ تو بھی عقل بیدار بن جائے
سن حال ان جھوٹے پیروں اور فقیروں کا اے نادان
پڑھ کے کتابیں سلوک و ملوک کی بن گئے جب رازداں
کسی نے داڑھی سجائی کسی نے زلفیں کھل گئی پیری کی دوکان
چلانے کے لئے دھندا لیا آسرا کھول بیٹھے قرآن


کوئی تقریر و تحریر سے کوئی عقل و تدبیر سے بن گیا خلق کا نشان
کسی نے منہ پہ چادر چڑھائی لگا لئے پیچھے چند انسان
کوئی دے کے روشنی بلب کی چہرے کو بن بیٹھا کرّوبیاں
کسی کو میسر یہ سہولت کہ تھے باپ دادا اس کے سلطان
لنگر بھی جاری کر دیا جو زمانہ شناس تھے
ہونے لگیں محفلیں پھر عام تھے یا خاص تھے
ہوا شہرت میں ایسے اضافہ سخاوت میں جو پاس تھے
ہو گئی حمایت ان کی بھی کہلاتے جو باس تھے
کوئی طالبی میں مصروف ہوا کوئی مریدی میں مقبول
ہو گئے پھر اس کنویں میں آ کے کئی چشمے حلول
سنی جب شہرت ابلیس نے ہو گیا وہ بھی نزول
سمایا ان کے سینوں میں بڑے سلیقے سے رکھ کے اصول


اب ڈھونڈ کر کوئی نقطہ تکمیل ہوئی
بنا کے فرقہ جدا نام کی تشکیل ہوئی
کمی کیا نادانوں کی جن کی تعمیل ہوئی
نکلا قوم کا جنازہ بگڑی جو اصیل ہوئی
گیا جو بھی اس کو طالبی کا رنگ دکھا دیا
کسی کو لگایا حبس دم پر کسی کو بھنگ پلا دیا
کسی کو بتایا کوئی وظیفہ کسی کو ملنگ بنا دیا
پہنچا سکیں گے کیا خاک کسی کو اک ڈھنگ سکھا دیا
آیا ان کے چنگل میں زندگی سے برباد ہوا
آیا جو بے راہ رجعت میں فریاد کیا بے فریاد ہوا
عمر گزاری پہاڑوں میں لاحاصل کتنا بیداد ہوا
آیا ہوش پھر جو استاد تھا بے استاد ہوا
ہم نے دیکھے ہیں طالب ایسے دشت و بیابانوں میں
کر رہے ہیں عمل پورا سیکھ کے آئے تھے جو دکانوں میں
آئی رجعت کوئی بیمار کوئی بے زار کوئی پڑے چنڈو خانوں میں
کوئی دیوانے کوئی مستانے کوئی ہو کے خوار مل گئے شیطانوں میں


یہ تو حال ہے طالبوں کا سن لو مریدوں کا بھی حشر
دے جایا کرو سال و سال نذرانہ ہیں ہم نجات محشر
ہو سکے تو عمل کرو ورنہ کیا بیٹھے جو ہیں ہم وسیلہ ¿ ظفر
کاش ان کو اپنی ہی خبر نہیں تیری کیا رکھیں گے خبر
ڈھونڈنا ہے پیر کو نہ دیکھ پدرم سلطان بود
یہ بھی نہ دیکھ گھوم گھام کر کہ شکل اُو انسان بود
اس کا بھی نہیں ہے یقین کہ تصنع ¿ مسلمان بود
کر یقین تب ہوں اس کے اعمال جیسے کروّبیاں بود
حریص نہ ہو نفس کا پجاری نہ ہو
اور نبی کی سنت کا شکاری نہ ہو
جھلک ہو اس میں نور کی ناری نہ ہو
رکھ خبر کہ پریشان عمر ساری نہ ہو


واقف ہو راہ قبور حاصل جسے حضوری ہو
جس کی اک ہی نظر سے حاصل تجھے منظوری ہو
یاد کرے دور سے حاصل جسے صدوری ہو
ورنہ نہیں ہے سمجھ تیری منزل پوری یا ادھوری ہو
میسر نہ ہو گر ایسا انسان شافی
پھر تیرے لئے بس ہے قرآن کافی
یہی شفاعت تیری یہی نشان کافی
یہی راہبر تیرا اور یہی سلطان کافی
٭٭٭٭٭٭٭

ہم پر یقین کر نہ کر کر یقین علم اکسیر پر
کر بھروسہ قرآن پر پھر کر یقین علم تکسیر پر
گر ہے شک یا بغض و عناد کر ماتم اپنی تقدیر پر
کہ رہتے ہیں خالی وہ برتن ہوتے ہیں جو الٹے شہتیر پر
نفس کو نہ پہچانا جو ساتھ تھا تیرے بندہ خدا کو کیا پہچانا
بندہ ¿ خدا کو نہ پہچانا تو محمد مصطفی کو کیا پہچانا
فنا کو بقا کو لقا کو نہ پہچانا تو عشق خدا کو کیا پہچانا
پہچان نہ سکا جب ان منزلوں کو تو خدا کو کیا پہچانا
سچ ہے نفس نہ ہوتا تو یہ بازار جہان نہ ہوتا
نہ ہوتی حُسن پرستی نہ ناز نخرے اور خریدار کفران نہ ہوتا
نہ آتے فرعون و قارون بھی مغلوں کا دسترخوان نہ ہوتا
نہ بنتی دوزخ نار ہرگز گر تیرا امتحان نہ ہوتا
بنایا تھا آدمؑ کو اﷲ نے پڑا تھا جب بت اِدھر
تھوکا تھا عزازیل نے حقارت سے پڑا تھا جو ناف پر
بن گیا وہ کیڑا باطنی لے کر حسد و تکبر
ہوا پیوست انسان سے پھر بسیرت کفر


لے کر ساتھ مصاحبوں کو سکندر بھی تلاش آبِ حیات ہوئے
کی عرض خضرؑ سے وہ بھی تیار در بحرِ ظلمات ہوئے
پا کے اندھیرا بحر میں ہو گئے خضرؑ سے جدا
خضرؑ کو ڈھونڈا اِدھر اُدھر نہ ملی کوئی راہ
آئے تھے ڈھونڈنے زندگی کو دکھایا موت نے نظارہ
ہو گئے مایوس و مجبور ہونے لگا ختم راشن سارا
بھٹک رہے تھے ہو کے پشیمان وہ بے خبر
پی کے پانی آبِ حیات کا آ گئے واپس بھی خضرؑ
ہوئے رنجیدہ دیکھ کے حال بیچاروں کا خضرؑ
کہ پانی تو نہ ملا اٹھا لو پاو ¿ں تلے ہیں جو پتھر
ہم تو تھکے ہارے ہیں رہا نہیں تم پر بھی یقین اے خضرؑ
تھے جن کے یقین محکم لیں پتھروں سے جھولیاں بھر
آئے جب روشنی میں دیکھا سب لعل و جواہر نکلے
ہوئی ندامت ان کو خضرؑ سے ہو کے بھی بیزار نکلے


یقین ہی تو کنجی ہے ایمان و عرفان سے
ہوتا نہیں ہے فائدہ بھی کچھ اس کے بغیر قرآن سے
آبِ حیات کیا تھا تھا عمل اکسیر شائد
بحر ظلمات کیا تھا تھا دنیا کا اسیر شائد
پیا جس نے بھی یہ پانی حیات و ممات برابر ہوئے
یہ جہاں کیا وہ جہاں کیا چودہ طبقات برابر ہوئے
٭٭٭٭٭٭٭