Monday, December 27, 2010
PAGE 5
حقیقت کا نظارہ ان جبلوں اور بیابانوں میں ہے
جو دنیا کے مکتبوں میں ہے نہ عبادت خانوں میں ہے
اِدھر کائنات بھی ڈھلتی کارخانوں میں ہے
نہ ملا ایسا سکون کبھی جو ان زندانوں میں ہے
رہ کے بھوکے و ننگے خوش ہیں اسیری پر
سوتے ہیں پتھروں پر کہ مست ہیں فقیری پر
کھاتی ہے ترس دنیا دیکھ کے حال ظہیری پر
ہمیں تو رشک ہے ہو گئے قربان راہ شبیریؓ پر
راضی ہو نہ ہو ہم نے تو اپنا خون بہا دیا
جس کا گلہ تھا تجھے اس پہ ہم نے سر کٹا دیا
چیرا سینے کو انگلیوں سے اور تیرا کلمہ جما دیا
کر کے ٹکرے ٹکرے دل کے اس پہ کعبہ بسا دیا
مان نہ احسان تو ہم نے تو احسان چڑھا دیا
کہ جھکا ہوا تھا سر تیرے محبوب کا جو بلند کرا دیا
خود کو کسی کے ذمہ کر تیرا ذمہ اٹھائے کوئی
بن کے ذمہ دار تیرا تجھے رستہ دکھائے کوئی
کاش میری ان باتوں کو بھی آزمائے کوئی
دین دنیا میں پھر ہرگز نہ دھوکہ کھائے کوئی
ہر عالم بے عمل نہیں ہے ہر بندہ بے عقل نہیں ہے
لٹکا کر داڑھیاں پھر رہے ہیں کئی ہر کوئی اصل نہیں ہے
پردے میں گھومتے ہیں شیطان بہت ہر کوئی بے شکل نہیں ہے
مگر آ جائے کچھ اس کی عقل میں یہ وہ نسل نہیں ہے
یہ تو وہ عمل ہے عاصیوں کو بھی مجیب مل جاتے ہیں
ہوتے ہیں جو بے نصیب انہیں بھی نصیب مل جاتے ہیں
نہیں ہے فرق خواندہ ناخواندگی کا کہ خطیب مل جاتے ہیں
ڈھونڈتی ہے دنیا جن کو ستاروں میں قریب مل جاتے ہیں
پارس بھی اسی میں کیمیا بھی اسی میں
وفا بھی حیا بھی شفا بھی اسی میں
رضا بھی بقا بھی لقا بھی اسی میں
خدا کی قسم خدا بھی اسی میں
کر پرواز بسم اﷲ کہ تو طائر کمال بن جائے
مل جائیں گے صیاد کئی جب طائر حلال بن جائے
چل جائے گی تکبیر زکوٰة کی گر تو جمال بن جائے
چڑھے نہ سورج جس کی خاطر شاید وہ بلالؓ بن جائے
نکل ناقصوں کے چکر سے کہ تو بھی نہ انگار بن جائے
رہ کے نزد خرمن شُعلہ ¿ بجلی کا نہ شکار بن جائے
دیکھ کے انداز جھوٹے کہیں نہ ان کا ہتھیار بن جائے
عبرت لے کہ تو بھی عقل بیدار بن جائے
سن حال ان جھوٹے پیروں اور فقیروں کا اے نادان
پڑھ کے کتابیں سلوک و ملوک کی بن گئے جب رازداں
کسی نے داڑھی سجائی کسی نے زلفیں کھل گئی پیری کی دوکان
چلانے کے لئے دھندا لیا آسرا کھول بیٹھے قرآن
کوئی تقریر و تحریر سے کوئی عقل و تدبیر سے بن گیا خلق کا نشان
کسی نے منہ پہ چادر چڑھائی لگا لئے پیچھے چند انسان
کوئی دے کے روشنی بلب کی چہرے کو بن بیٹھا کرّوبیاں
کسی کو میسر یہ سہولت کہ تھے باپ دادا اس کے سلطان
لنگر بھی جاری کر دیا جو زمانہ شناس تھے
ہونے لگیں محفلیں پھر عام تھے یا خاص تھے
ہوا شہرت میں ایسے اضافہ سخاوت میں جو پاس تھے
ہو گئی حمایت ان کی بھی کہلاتے جو باس تھے
کوئی طالبی میں مصروف ہوا کوئی مریدی میں مقبول
ہو گئے پھر اس کنویں میں آ کے کئی چشمے حلول
سنی جب شہرت ابلیس نے ہو گیا وہ بھی نزول
سمایا ان کے سینوں میں بڑے سلیقے سے رکھ کے اصول
اب ڈھونڈ کر کوئی نقطہ تکمیل ہوئی
بنا کے فرقہ جدا نام کی تشکیل ہوئی
کمی کیا نادانوں کی جن کی تعمیل ہوئی
نکلا قوم کا جنازہ بگڑی جو اصیل ہوئی
گیا جو بھی اس کو طالبی کا رنگ دکھا دیا
کسی کو لگایا حبس دم پر کسی کو بھنگ پلا دیا
کسی کو بتایا کوئی وظیفہ کسی کو ملنگ بنا دیا
پہنچا سکیں گے کیا خاک کسی کو اک ڈھنگ سکھا دیا
آیا ان کے چنگل میں زندگی سے برباد ہوا
آیا جو بے راہ رجعت میں فریاد کیا بے فریاد ہوا
عمر گزاری پہاڑوں میں لاحاصل کتنا بیداد ہوا
آیا ہوش پھر جو استاد تھا بے استاد ہوا
ہم نے دیکھے ہیں طالب ایسے دشت و بیابانوں میں
کر رہے ہیں عمل پورا سیکھ کے آئے تھے جو دکانوں میں
آئی رجعت کوئی بیمار کوئی بے زار کوئی پڑے چنڈو خانوں میں
کوئی دیوانے کوئی مستانے کوئی ہو کے خوار مل گئے شیطانوں میں
یہ تو حال ہے طالبوں کا سن لو مریدوں کا بھی حشر
دے جایا کرو سال و سال نذرانہ ہیں ہم نجات محشر
ہو سکے تو عمل کرو ورنہ کیا بیٹھے جو ہیں ہم وسیلہ ¿ ظفر
کاش ان کو اپنی ہی خبر نہیں تیری کیا رکھیں گے خبر
ڈھونڈنا ہے پیر کو نہ دیکھ پدرم سلطان بود
یہ بھی نہ دیکھ گھوم گھام کر کہ شکل اُو انسان بود
اس کا بھی نہیں ہے یقین کہ تصنع ¿ مسلمان بود
کر یقین تب ہوں اس کے اعمال جیسے کروّبیاں بود
حریص نہ ہو نفس کا پجاری نہ ہو
اور نبی کی سنت کا شکاری نہ ہو
جھلک ہو اس میں نور کی ناری نہ ہو
رکھ خبر کہ پریشان عمر ساری نہ ہو
واقف ہو راہ قبور حاصل جسے حضوری ہو
جس کی اک ہی نظر سے حاصل تجھے منظوری ہو
یاد کرے دور سے حاصل جسے صدوری ہو
ورنہ نہیں ہے سمجھ تیری منزل پوری یا ادھوری ہو
میسر نہ ہو گر ایسا انسان شافی
پھر تیرے لئے بس ہے قرآن کافی
یہی شفاعت تیری یہی نشان کافی
یہی راہبر تیرا اور یہی سلطان کافی
٭٭٭٭٭٭٭
ہم پر یقین کر نہ کر کر یقین علم اکسیر پر
کر بھروسہ قرآن پر پھر کر یقین علم تکسیر پر
گر ہے شک یا بغض و عناد کر ماتم اپنی تقدیر پر
کہ رہتے ہیں خالی وہ برتن ہوتے ہیں جو الٹے شہتیر پر
نفس کو نہ پہچانا جو ساتھ تھا تیرے بندہ خدا کو کیا پہچانا
بندہ ¿ خدا کو نہ پہچانا تو محمد مصطفی کو کیا پہچانا
فنا کو بقا کو لقا کو نہ پہچانا تو عشق خدا کو کیا پہچانا
پہچان نہ سکا جب ان منزلوں کو تو خدا کو کیا پہچانا
سچ ہے نفس نہ ہوتا تو یہ بازار جہان نہ ہوتا
نہ ہوتی حُسن پرستی نہ ناز نخرے اور خریدار کفران نہ ہوتا
نہ آتے فرعون و قارون بھی مغلوں کا دسترخوان نہ ہوتا
نہ بنتی دوزخ نار ہرگز گر تیرا امتحان نہ ہوتا
بنایا تھا آدمؑ کو اﷲ نے پڑا تھا جب بت اِدھر
تھوکا تھا عزازیل نے حقارت سے پڑا تھا جو ناف پر
بن گیا وہ کیڑا باطنی لے کر حسد و تکبر
ہوا پیوست انسان سے پھر بسیرت کفر
لے کر ساتھ مصاحبوں کو سکندر بھی تلاش آبِ حیات ہوئے
کی عرض خضرؑ سے وہ بھی تیار در بحرِ ظلمات ہوئے
پا کے اندھیرا بحر میں ہو گئے خضرؑ سے جدا
خضرؑ کو ڈھونڈا اِدھر اُدھر نہ ملی کوئی راہ
آئے تھے ڈھونڈنے زندگی کو دکھایا موت نے نظارہ
ہو گئے مایوس و مجبور ہونے لگا ختم راشن سارا
بھٹک رہے تھے ہو کے پشیمان وہ بے خبر
پی کے پانی آبِ حیات کا آ گئے واپس بھی خضرؑ
ہوئے رنجیدہ دیکھ کے حال بیچاروں کا خضرؑ
کہ پانی تو نہ ملا اٹھا لو پاو ¿ں تلے ہیں جو پتھر
ہم تو تھکے ہارے ہیں رہا نہیں تم پر بھی یقین اے خضرؑ
تھے جن کے یقین محکم لیں پتھروں سے جھولیاں بھر
آئے جب روشنی میں دیکھا سب لعل و جواہر نکلے
ہوئی ندامت ان کو خضرؑ سے ہو کے بھی بیزار نکلے
یقین ہی تو کنجی ہے ایمان و عرفان سے
ہوتا نہیں ہے فائدہ بھی کچھ اس کے بغیر قرآن سے
آبِ حیات کیا تھا تھا عمل اکسیر شائد
بحر ظلمات کیا تھا تھا دنیا کا اسیر شائد
پیا جس نے بھی یہ پانی حیات و ممات برابر ہوئے
یہ جہاں کیا وہ جہاں کیا چودہ طبقات برابر ہوئے
٭٭٭٭٭٭٭
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment