کہاں تیری ثناء کہاں یہ گناہگار بندہ
کہاں لاہوت و لامکاں کہاں یہ عیب دار بندہ
نور سراپا ہے تو مگر یہ نقص دار بندہ
کتنی جرات بن گیا تیرے عشق کا دعویدار بندہ
مگر عشق تیرا دن رات ستائے پھر میں کیا کروں
عشق تیرا دشت و جبل میں رلائے پھر میں کیا کروں
پاک ہے ذات تیری مگر یہ بے نشان بندہ
بادشاہ ہے تو زمانے کا مگر یہ بے اشنان بندہ
مالک ہے تو خزانے کا مگر یہ بے سروسامان بندہ
جتلائے پھر بھی عشق تجھ سے یہ انجان بندہ
مگر اس عشق میں موت بھی نہ آئے پھر میں کیا کروں
عشق تیرا دشت و جبل میں رلائے پھر میں کیا کروں
آئی آواز اے عاشق اپنا گریبان دیکھ
عمل ہیں تیرے روسیاہ اس سیاہی کا نشان دیکھ
لگا نہ دھبہ عشق پر اے نادان دیکھ
گر بننا ہے عاشق پھر نصوحے کی دکان دیکھ
مگر تیرا یہ نصوحہ نہ مل پائے پھر میں کیا کروں
عشق تیرا دشت و جبل میں رلائے پھر میں کیا کروں
لگ گئی آگ سینے میں بجھانا بھی مشکل ہو گیا
عشق کہتے کہتے عشق نبھانا بھی مشکل ہو گیا
دیکھا جو دستور یار کو جان بچانا بھی مشکل ہو گیا
جکڑے گئے زنجیروں میں راز بتانا بھی مشکل ہو گیا
گر تو بھی جلوہ نہ دکھائے پھر میں کیا کروں
عشق تیرا دشت و جبل میں رلائے پھر میں کیا کروں
نہیں ہوں سوالی فقیری میرا دھندا نہیں ہے
دنیا والو عشق خدا ہے عشق بندہ نہیں ہے
عرصے سے ہوں آوارہ میں کوئی اندھا نہیں ہے
عشق ہے یہ ابدی کوئی پرندہ نہیں ہے
یہ دنیا مجھے پاگل بنائے پھر میں کیا کروں
عشق تیرا دشت و جبل میں رلائے پھر میں کیا کروں
خیال آتا ہے مجھے اپنی سیاہ کاری کا
دل روتا ہے دیکھ کر حال اپنی خریداری کا
ہوتی ہے تسلی پھر دیکھ کے حال آہ و زاری کا
ملتا ہے پھر ثبوت مجھے تیری غفاری کا
مگر یہ عشق فلک سے جا ٹکرائے پھر میں کیا کروں
عشق تیرا دشت و جبل میں رلائے پھر میں کیا کروں
نکلا جو پنجہ ابلیس سے سمن جاری ہو گیا
ڈالا گھیرا فوج ابلیس نے ملزم باغی ہو گیا
نفس بھی ہوا دشمن دل تھا جو غازی ہو گیا
بچایا جو قلندرؒ نے رب بھی راضی ہو گیا
اب بھی تو پردہ نہ اٹھائے تو میں کیا کروں
عشق تیرا دشت و جبل میں رلائے پھر میں کیا کروں
نکلا نالہ جب سینے سے دل سینے میں تڑپنے لگا
غضب عشق میں آ کر سارا جنگل اللہ ھُو اللہ ھُو کرنے لگا
پہنچی آواز جو عرش پر عرش بھی تھر تھر ہلنے لگا
کیسی یہ ھُو تھی کہ زمین و آسمان جلنے لگا
تو پھر بھی سر نہ اٹھائے تو میں کیا کروں
عشق تیرا دشت و جبل میں رلائے پھر میں کیا کروں
پڑے ہیں ٹیلوں پر یہ بے آب و گیاہی
تعجب ہے کیا یہی ہے قاعدہ فقرائی
نیند گئی لقمہ بھی گیا یہی ہے رضائے الٰہی
پڑے ہیں مستی میں نظریں جمائے ہوئے گوھر شاہی
ان نظروں میں گر تو نہ آئے پھر میں کیا کروں
عشق تیرا دشت و جبل میں رلائے پھر میں کیا کروں
ملتا نہیں خدا بھی محمد کی رضا کے بغیر
ہوتی نہیں رضائے محمدی شریعت مصطفیؐ کے بغیر
پہنچ نہ سکے گا ہرگز تو اس شاہراہ کے بغیر
کہ خدا بھی چلتا نہیں قانون خدا کے بغیر
اس قانون میں بھی تو سامنے نہ آئے تو میں کیا کروں
عشق تیرا دشت و جبل میں رلائے پھر میں کیا کروں
یوں تو اللہ ھُو ہے جا بجا مگر اک نقطے میں بات ہوتی ہے
مل جائے گر یہ نقطہ پھر نور کی برسات ہوتی ہے
اسی نقطے کی تلاش میں طالبوں کی عمر برباد ہوتی ہے
خدا کی قسم اسی نقطے سے مجبور خدا کی ذات ہوتی ہے
یہ نقطہ پا کر بھی تو نظر نہ آئے پھر میں کیا کروں
عشق تیرا دشت و جبل میں رلائے پھر میں کیا کروں
ہزاروں رستے ہیں عرش بریں تک ابھی تو تو رواں ہے
ہزاروں دشمن ہیں ان راہوں میں تیرا کدھر گماں ہے
گر مقدر ہیں بلند تیرے آشیانہ بہ آسمان ہے
مگر آسماں کے آگے اس عشق کی دکان ہے
ان راہوں میں ہی گر عشق ستائے پھر میں کیا کروں
عشق تیرا دشت و جبل میں رلائے پھر میں کیا کروں
آگئے کدھر ہم یہ تو سخی شہبازؒ کی چلّہ گاہ ہے
واہ رے خوش نصیبی یہ ہماری بھی عبادت گاہ ہے
وہ تو کر گئے پرواز اب ہماری انتظار گاہ ہے
اس بھٹکے ہوئے مسافر پر انکی بھی نگاہ ہے
سخی شہبازؒ کی محفل میں جا کر بھی یاد تیری ستائے پھر میں کیا کروں
عشق تیرا دشت و جبل میں رلائے پھر میں کیا کروں
اس عشق میں طلعت و بابر کو بھی بھلا بیٹھے
یاد رہی نہ کسی کی اپنا آپ بھی گنوا بیٹھے
عقل تھی جو تھوڑی سی وہ بھی جلا بیٹھے
اے رب تیرے عشق میں ہم یہ دکھڑا بھی سنا بیٹھے
گر تو بھی قدم قدم پر آزمائے پھر میں کیا کروں
عشق تیرا دشت و جبل میں رلائے پھر میں کیا کروں
کہاں لاہوت و لامکاں کہاں یہ عیب دار بندہ
نور سراپا ہے تو مگر یہ نقص دار بندہ
کتنی جرات بن گیا تیرے عشق کا دعویدار بندہ
مگر عشق تیرا دن رات ستائے پھر میں کیا کروں
عشق تیرا دشت و جبل میں رلائے پھر میں کیا کروں
پاک ہے ذات تیری مگر یہ بے نشان بندہ
بادشاہ ہے تو زمانے کا مگر یہ بے اشنان بندہ
مالک ہے تو خزانے کا مگر یہ بے سروسامان بندہ
جتلائے پھر بھی عشق تجھ سے یہ انجان بندہ
مگر اس عشق میں موت بھی نہ آئے پھر میں کیا کروں
عشق تیرا دشت و جبل میں رلائے پھر میں کیا کروں
آئی آواز اے عاشق اپنا گریبان دیکھ
عمل ہیں تیرے روسیاہ اس سیاہی کا نشان دیکھ
لگا نہ دھبہ عشق پر اے نادان دیکھ
گر بننا ہے عاشق پھر نصوحے کی دکان دیکھ
مگر تیرا یہ نصوحہ نہ مل پائے پھر میں کیا کروں
عشق تیرا دشت و جبل میں رلائے پھر میں کیا کروں
لگ گئی آگ سینے میں بجھانا بھی مشکل ہو گیا
عشق کہتے کہتے عشق نبھانا بھی مشکل ہو گیا
دیکھا جو دستور یار کو جان بچانا بھی مشکل ہو گیا
جکڑے گئے زنجیروں میں راز بتانا بھی مشکل ہو گیا
گر تو بھی جلوہ نہ دکھائے پھر میں کیا کروں
عشق تیرا دشت و جبل میں رلائے پھر میں کیا کروں
نہیں ہوں سوالی فقیری میرا دھندا نہیں ہے
دنیا والو عشق خدا ہے عشق بندہ نہیں ہے
عرصے سے ہوں آوارہ میں کوئی اندھا نہیں ہے
عشق ہے یہ ابدی کوئی پرندہ نہیں ہے
یہ دنیا مجھے پاگل بنائے پھر میں کیا کروں
عشق تیرا دشت و جبل میں رلائے پھر میں کیا کروں
خیال آتا ہے مجھے اپنی سیاہ کاری کا
دل روتا ہے دیکھ کر حال اپنی خریداری کا
ہوتی ہے تسلی پھر دیکھ کے حال آہ و زاری کا
ملتا ہے پھر ثبوت مجھے تیری غفاری کا
مگر یہ عشق فلک سے جا ٹکرائے پھر میں کیا کروں
عشق تیرا دشت و جبل میں رلائے پھر میں کیا کروں
نکلا جو پنجہ ابلیس سے سمن جاری ہو گیا
ڈالا گھیرا فوج ابلیس نے ملزم باغی ہو گیا
نفس بھی ہوا دشمن دل تھا جو غازی ہو گیا
بچایا جو قلندرؒ نے رب بھی راضی ہو گیا
اب بھی تو پردہ نہ اٹھائے تو میں کیا کروں
عشق تیرا دشت و جبل میں رلائے پھر میں کیا کروں
نکلا نالہ جب سینے سے دل سینے میں تڑپنے لگا
غضب عشق میں آ کر سارا جنگل اللہ ھُو اللہ ھُو کرنے لگا
پہنچی آواز جو عرش پر عرش بھی تھر تھر ہلنے لگا
کیسی یہ ھُو تھی کہ زمین و آسمان جلنے لگا
تو پھر بھی سر نہ اٹھائے تو میں کیا کروں
عشق تیرا دشت و جبل میں رلائے پھر میں کیا کروں
پڑے ہیں ٹیلوں پر یہ بے آب و گیاہی
تعجب ہے کیا یہی ہے قاعدہ فقرائی
نیند گئی لقمہ بھی گیا یہی ہے رضائے الٰہی
پڑے ہیں مستی میں نظریں جمائے ہوئے گوھر شاہی
ان نظروں میں گر تو نہ آئے پھر میں کیا کروں
عشق تیرا دشت و جبل میں رلائے پھر میں کیا کروں
ملتا نہیں خدا بھی محمد کی رضا کے بغیر
ہوتی نہیں رضائے محمدی شریعت مصطفیؐ کے بغیر
پہنچ نہ سکے گا ہرگز تو اس شاہراہ کے بغیر
کہ خدا بھی چلتا نہیں قانون خدا کے بغیر
اس قانون میں بھی تو سامنے نہ آئے تو میں کیا کروں
عشق تیرا دشت و جبل میں رلائے پھر میں کیا کروں
یوں تو اللہ ھُو ہے جا بجا مگر اک نقطے میں بات ہوتی ہے
مل جائے گر یہ نقطہ پھر نور کی برسات ہوتی ہے
اسی نقطے کی تلاش میں طالبوں کی عمر برباد ہوتی ہے
خدا کی قسم اسی نقطے سے مجبور خدا کی ذات ہوتی ہے
یہ نقطہ پا کر بھی تو نظر نہ آئے پھر میں کیا کروں
عشق تیرا دشت و جبل میں رلائے پھر میں کیا کروں
ہزاروں رستے ہیں عرش بریں تک ابھی تو تو رواں ہے
ہزاروں دشمن ہیں ان راہوں میں تیرا کدھر گماں ہے
گر مقدر ہیں بلند تیرے آشیانہ بہ آسمان ہے
مگر آسماں کے آگے اس عشق کی دکان ہے
ان راہوں میں ہی گر عشق ستائے پھر میں کیا کروں
عشق تیرا دشت و جبل میں رلائے پھر میں کیا کروں
آگئے کدھر ہم یہ تو سخی شہبازؒ کی چلّہ گاہ ہے
واہ رے خوش نصیبی یہ ہماری بھی عبادت گاہ ہے
وہ تو کر گئے پرواز اب ہماری انتظار گاہ ہے
اس بھٹکے ہوئے مسافر پر انکی بھی نگاہ ہے
سخی شہبازؒ کی محفل میں جا کر بھی یاد تیری ستائے پھر میں کیا کروں
عشق تیرا دشت و جبل میں رلائے پھر میں کیا کروں
اس عشق میں طلعت و بابر کو بھی بھلا بیٹھے
یاد رہی نہ کسی کی اپنا آپ بھی گنوا بیٹھے
عقل تھی جو تھوڑی سی وہ بھی جلا بیٹھے
اے رب تیرے عشق میں ہم یہ دکھڑا بھی سنا بیٹھے
گر تو بھی قدم قدم پر آزمائے پھر میں کیا کروں
عشق تیرا دشت و جبل میں رلائے پھر میں کیا کروں
No comments:
Post a Comment