گیا تھا بیرون ممالک کہ آکے بنگلے بنائیں گے
بڑی محنت سے کام کیا ورنہ سبھی طعنے بنائیں گے
گئے گر خالی ہاتھ اُدھر نبی کو کیا منہ دکھائیں گے
مانگیں گے وہ تحفہ کچھ ہم کےسے نظریں اٹھائیں گے
پچھتائیں گے پھر وہ بھی جو تھے نہ پچھتانے والے
ہو گی ان کو بھی ندامت تھے جو حلوے دنبے کھانے والے
پوچھا جائے گا ان سے بھی تھے جو بے تاج حکومت چلانے والے
ہوئی گر سفارش اعمالوں کے سوا ہوں گے حق پر سر کٹانے والے
اُدھر حسب نسب چلتا نہیں اُدھر تو میزان ہے
اُدھر سیّد قریشی کی کیا پرواہ جو تارکِ قرآن ہے
اہل حرفہ اہل سیاست سبھی کے لئے اک فرمان ہے
تھا جو بھی اس کی یاد سے غافل وہی حیوان ہے
ہوا حیوان جب تو زنجیر لازم ہو گئی
نہ دیکھا گوشت و پوست کو تکبیر لازم ہو گئی
نہ دیکھا اس کا رتبہ شاہی تقدیر لازم ہو گئی
بچا نہ سکے گا کوئی جب تحریر لازم ہو گئی
٭٭٭٭٭٭٭
چھوڑ کے خیال دنیا کا دنیا والوں سے جی بہلانا کیا
پڑیں جہاں ایمان پر چھینٹیں اس کوچے سے گزر جانا کیا
ملا نہ کوئی محرم دل انجانوں کو حال سنانا کیا
مر گئے زندگی میں ایک بار اب جینا کیا مر جانا کیا
وہ قلب ہی نہ رہا تن میں پھر طلعت کیا بیگانہ کیا
ہر دم رہے زبان پہ تو ہی تو کملا کیا دیوانہ کیا
جل رہے ہیں جب عشق میں ہم کو اور ستانا کیا
دے کر دیدار دیکھ ہوتی ہے شمع کیا پروانہ کیا
٭٭٭٭٭٭٭
اوّل سے ہی اللہ ہم کو آزماتا رہا
اور خلقت میں بھی نشانہ ملامت بناتا رہا
کیا کوئی بھی دھندا دھندے کو بھی رُلاتا رہا
کیا خبر تھی ہم میں صبر و تحمّل بناتا رہا
دیں اتنی ٹھوکریں کہ زندگی سے بیزار ہوئے
چھوڑ کے بال بچّے اس دنیا سے فرار ہوئے
بنایا بسیرا پھر پہاڑوں میں اور تلاش یار ہوئے
بہت ہی مغلوب تھے ہم جو آج شکن حصار ہوئے
٭٭٭٭٭٭٭
کر لے جب بھی توبہ وہ منظور ہوتی ہے
بندہ بشر ہے جس سے غلطی ضرور ہوتی ہے
کہتے ہیں موسٰیؑ اللہ کو وہی عبادت محبوب ہوتی ہے
جس میں گناہ گاروں کی گریہ زاری خوب ہوتی ہے
شکر ہے پروردگار تیرا اس عاصی پر فضل کیا
نکالا دنیا کے کیچڑ سے آشیانہ بہ جبل کیا
ہدایت دے کر قرآن و عرفان کی روانہ بہ منزل کیا
وہ بھی تو ہیں بے نصیب جن کے دلوں کو تو نے قفل کیا
قفلوں والے کریں گے کیسے یقین ہم پر
کہ ہو چکا ہے اتنا مہربان رب العالمین ہم پر
کھول چکا ہے اسرار حور و نازنین ہم پر
کہ بس رہا ہے جُسّہ توفیقِ الٰہی زمین ہم پر
حق و نور کی روشنی جب آنکھوں میں آئی
چودہ طبق نظر آئے جیسے اک رائی
اک سے اک کا فاصلہ اتنا چھوٹی سی کھائی
واہ رے نادان نادانوں کو عجب کہانی سنائی
سن اے انجان جس طرح زر و مال کی زکوٰة ہوتی ہے
عامل کامل پر بھی واجب ےہ بات ہوتی ہے
حق کرےں ادا دنےا مےں گمنام ےہ تو مشکلات ہوتی ہے
برزخ سے آکر کرتے ہیں حق ادا جن پر حاضرات ہوتی ہے
پڑھ کے کلام ہمارا شائد تو بھی ہوش میں آئے
یہ بھی ممکن ہے جو ہوش ہے اس سے بھی جائے
اس کو سمجھیں گے عام کیا خاص کی بھی سمجھ میں نہ آئے
ابھی بھی چھپایا ہے بہت کچھ طعنہ ¿ خود فروشی نہ مل جائے
کھولا ہے راز اس لئے حق و باطل کی تمیز کر
کھول آنکھیں اپنی اپنے اندر پیدا یہ چیز کر
یہی ہے مسلم کی وراثت کیوں نہ اس کو عزیز کر
نہ رکھ خیال عالمانہ عمل و یقین بر قلم ناچیز کر
ڈھونڈ کسی پارس کو کہ تو بھی سونا بن جائے
ایسا نہ ہو کہ زندگی تیری رونا بن جائے
گیا وقت یہ بھی پھر کانٹوں کا نہ بچھونا بن جائے
ڈر ہے یہ بھی کسی ناقص کا نہ کھلونا بن جائے
دے رہے ہیں لعنتیں یاران نبی کو ہیں یہ بھی پیر والے
رابعہ بصریؒ پر بھی کستے ہیں آوازیں کچھ شیطانی زنجیر والے
کچھ غوث پاکؒ کو نہیں مانتے ہیں یہ بھی دید و شنید والے
مومن و ولی بنے بیٹھے ہیں یہی ہیں دراصل یزید والے
بھنگ چرس افیون ان کا ایمان ہے
راہبر ہے وہ بھی فارغ سنت و قرآن ہے
حضرت علیؓ کو اﷲ بنا بیٹھے یہی ان کا ذکر زبان ہے
منافق ہے ان کی نظروں میں باقی جو بھی مسلمان ہے
کچھ احمدی بھی ہیں پرویزی بھی نہ جانے کیا کیا
جو بھی بنتا ہے فرقہ وہی ہوتا ہے ُسنت سے جدا
ان کی چال نئی جماعت نئی اور انداز نیا
نہ سمجھ سکے گا انجان تو کون ہے کیا اور کون کیا
ہم نے تفصیل لکھ دی ان کو آزمانے کے بعد
پائی ہم نے یہ راہ گھربار لٹانے کے بعد
تو بھی پالے گا کچھ نہ کچھ ٹھوکریں کھانے کے بعد
سیکھا نہ گر یہ سبق پچھتائے گا مر جانے کے بعد
یہ راز چھپا کر کریں گے کیا اب تو دنیا فانی ہے
انتظار تھا جس قیامت کا عنقریب آنی ہے
دجال و رجال پیدا ہو چکے یہ بھی اک نشانی ہے
ظاہر ہونے والا ہے مہدیؑ بھی یہی راز سلطانی ہے
پڑھ کر علم عمل نہ کیا تو عالمیت کیا
کر کے عمل پارس نہ پکڑا تو قابلیت کیا
مل گئے دونوں آزمایا نہ تو صلاحیت کیا
پا نہ سکا پھر بھی خدا کو تیری اصلیت کیا
گر چالیس سال عمر ہوئی ابلیس نے بھی منہ موڑ دیا
پوچھا ابلیس سے کیا قصور کہ تو نے دل توڑ دیا
کہنے لگا کیا ضرورت میری تجھے ہی ابلیس بنا کے چھوڑ دیا
چل نہ سکے گا عمل تجھ پر کہ سارا عمل نچوڑ دیا
لے کر بھید میرا گر کچھ نہ پایا دعویٰ نہ رکھنا مسلمانی کا
ڈھانچہ تو ہے انسانی تیرا روح نہ پایا انسانی کا
جھکڑا ہے زنجیروں سے جسم تیرا غلبہ ہے جس پر شیطانی کا
کیا عجب دل پر بھی لگا ہو قفل تیرے قہر سلطانی کا
نماز بھی پڑھا دی مولانا نے قرآن پڑھنا بھی سکھا دیا
کلمے بھی پڑھائے حدیثیں بھی بہت کچھ مغز میں بٹھا دیا
بتا نہ سکا دل کا رستہ باقی سب کچھ پڑھا دیا
یہی ایک خامی تھی ابلیس نے سب کچھ جلا دیا
کرتا ہے ذکر زبان سے پڑتا ہے جب در ریاضت آدمی
پڑھتا ہے نفل و تہجد آتا ہے پھر در نزاکت آدمی
پکڑتا ہے خناس دل کو اثر نہیں کرتی عبادت آدمی
ہنستا ہے پاس کھڑا ابلیس دیکھ کر حالت آدمی
کر رہا ہے اﷲ اﷲ دل کو کچھ خبر نہیں
ماتھا بھی گھس گیا سجدوں میں مگر کچھ اثر نہیں
ہو گئے پھر باغی اتنی محنت سے بھی پاک ہوا صدر نہیں
یہ نہ سمجھ سکے دل پہنچتا ہے عرش پر بشر نہیں
چھوڑ عبادت ایسی پہلے دل کو صاف کر
لگا کے ٹیکہ نوری نفس کو بھی پاک کر
لکھ دل پر اسم اﷲ انگلی کو قلم خیال کر
آئے جب نظر قلب پہ اسم اﷲ پھر عبادت بے باک کر
پھر ناف پر بھی تصور سے اسم اﷲ جما
کر کے مشق یہ نفس کو بھی مطمئنہ بنا
پھر ہاتھوں پر لکھ ماتھے پر بھی تصور بنا
آنکھوں پہ لکھ کانوں پہ لکھ ناک کو بھی اس میں سما
لکھا جائے گا اک دن تصور سے یہ ضرور
ہو جائے گا ذکر قلب بھی جاری گر کر لے منظور
اسی سے ہوگا حاصل تجھے ذاتی نور
یہی ہے وسیلہ ولیوں کا یہی راہ حضورؐ
آخر جب پھینک کر آئیں گے گھر والے قبر میں تجھ کو
آئیں گے فرشتے سوال کرنے ہوں گے ششدر دیکھ کر تجھ کو
دیکھ کر تاباں اسم اﷲ ماتھے پر دیں گے صدا تجھ کو
جرا ¿ت نہیں ہے کچھ پوچھنے کی پھر شاید دے تو دُعا مجھ کو
ہوتا ہے مومن ہوتا ہے جب ذکر قلب جاری
اتنا مشکل تو نہیں ہے گر تو سمجھ نہ بیٹھے بھاری
کرے گر مشق اس کی ثابت ہو تجھ پہ بات ہماری
وگرنہ اے پیارے رگڑتا رہ بے راہر و عمر ساری
آیا جب مسلم کے گھر میں تو اک انسان ہوا
چلا جب دین پر دل سے تو وہ مسلمان ہوا
مومن بنا جب تب اس پہ واجب قرآن ہوا
ورنہ نہیں ہے خبر کچھ یزید ہوا کہ ہامان ہوا
ابلیس سے بچائے مشکل نہیں مگر آدمی ہے امتحان کا
مقابلہ ہے اس کا فرشتوں سے قصہ نہیں یہ زبان کا
اس کا ڈھانچہ اک بوتل ہے بند ہے علم جس میں کون و مکاں کا
بند ہیں اس میں نو جُسّے سات لطیفے بھید ہے یہ قرآن کا
یہ جُسّے جسم میں تیرے ہیں پیوستہ اور روحیں بھی پیوستہ
دیکھ نہ سکے تو ان کو یہی ہے تجھ پہ شیطان کا پردہ
ان کی تربیت تیرے ذمہ ورنہ تو بھی جہل وہ بھی جہلا
تربیت سے نکلتے ہیں جب وجود سے تب ہوتا ہے آدمی باخدا
ایک تو لطیفہ قلب ہے جو نکلے تو عرش سے جا ٹکرائے
دوسرا ہے جُسہّ نفس وہ بھی آدمی کو طیر سیر کرائے
لطیفہ اناّ و خفی بھی ہیں میلوں آدمیوں سے بات کرائے
ملے جب اتنے غیبی لشکر تب ہی آدمی اشرف البشر کہلائے
آ جائے بشر گر تکبیر میں اس کو سمجھا سکتا ہے کون
آ جائے گر ضد پہ اس کو بچا سکتا ہے کون
ہوجائے گر نفس کا قیدی تواس کو چھڑا سکتا ہے کون
مگر ہو جائے گر اللہ کا تو اس کو مٹا سکتا ہے کون
تو وہ عظیم ہے کہ ےہ کون و مکاں بھی تیرے ہوئے
ہوا جب کوہ و پیما زمین و آسماں بھی تیرے ہوئے
پھر بنا گر شہباز لامکانی چودہ جہاں بھی تیرے ہوئے
پڑی دعوت گر زبان قلب سے حوریں کیا کروبیاں بھی تیرے ہوئے
بتاؤں کیا زبان قلب ہے کیا یہ تو لمبا ساز ہے
کیا جانے تو تیرے اس ڈھانچے میں کیا کیا راز ہے
دعوت ہے کیا روحوں اور ملائکوں کو بلانے کی آواز ہے
ہوتا ہے جب عمل دعوت میں کامل بندہ نہیں بندہ نواز ہے
نکلتے ہیں جب جُسّے جسم سے ڈھونڈتے ہیں اپنی تربیت گاہ
سالک سے ہمکلام بھی ہوتے ہیں جس طرح سالک کی شکل و شبہاہ
باطن میں ان کے سکول ہیں ان کی تعلیم جدا زبان جدا
ہوتا ہے کوئی فرش پر عرش پر کوئی کعبے میں کوئی روئے خدا
یہ درجہ پایا تو نے گر مقدر سے پائے گا
کری کوشش گر کچھ نہ کچھ تو ہاتھ آئے گا
مارا گیا اس راہ میں درجہ شہادت تو پائے گا
ورنہ اے بندے وہاں جا کر کیسے گردن اٹھائے گا
اُدھر یہ تو پوچھتے نہیں یہ کرکٹ کا کھلاڑی تھا
کرنل تھا جرنل تھا یا وزن اس کا بھاری تھا
ادیب تھا شاعر تھا مُلّا تھا یا بخاری تھا
دیکھیں گے یہی کتنا نور اس کا جاری تھا
نفس کی تو پرورش کرتا رہا جو شیطان لعین تھا
پایا نہ کچھ قرآن سے جو تیرا فرض اوّلین تھا
فکر مال چکر ذال میں الجھا رہا یہ تو امتحان یقین تھا
اب ڈھونڈتا ہے پروانہ شفاعت کیا تو نہ مسلمین تھا
مسجدوں کی جگہ مے خانے بنائے
لگا کر عَلم زنا خانے بنائے
لٹکا کر تسبیحاں چہرے معصومانے بنائے
بنے اولیاءکہ کھانے پینے کے بہانے بنائے
یہ دھوکہ اﷲ سے نہیں خود کو دھوکہ دیا
واہ رہے بندے نفس کی خاطر تو نے کیا کچھ کیا
٭٭٭٭٭٭٭
پوچھا موسٰیؑ نے اﷲ سے تجھے کوئی پائے تو پائے کہاں
میں آتا ہوں طور پر وہ جائے تو جائے کہاں
گر ہو کوئی مشرق میں پیدا تو وہ طور بنائے کہاں
آئی آواز ہوتا ہوں ذاکر کے قلب میں زمیں پہ ہو یا آسماں
پھر کہا اﷲ نے میں ناراض ہوں تجھ سے اے موسٰیؑ
میں کل بیمار تھا تو دیکھنے تک نہ آیا
کہا موسٰیؑ نے ہوتا ہے بیمار تو یہ انداز کیا راز کیا
بیمار تھا تیرے محلے میں ذاکر قلبی کیا میں اس میں نہ تھا
پھر کہا موسٰیؑ نے ِگھس گئے پاؤں میرے اب تو جلوہ دکھا
یہ راز نہ کھل سکے گا محمد اور اس کی اُمت کے سوا
آئے پھر ضد پہ موسٰیؑ وہ بھی انسان ہوں گے میری طرح
پڑی جب جھلک نور کی موسٰیؑ جلے طور جلا
کتنا خوش نصیب ہے تو کہ امت محمد سے ہوا
کر دیدار خواب میں مراقبے میں یا رُوبرو یہ درجہ تجھے ملا
کل نبی و مرسل ترستے رہے زندگی میں یہ راز نہ ملا
یہ تو وہی راز ہے جس کا میں نے کھل کر ذکر کیا
کہا نبی پاک نے سید پشت حضور سے نکلا
گر کوئی عالم باعمل نکلا تو میرے سینہ ظہور سے نکلا
پایا کسی نے مقام فقر میرے اور اﷲ کے نور سے نکلا
گر ہوا غرق راہ حق میں وہ میرے منشور سے نکلا
کر کے محنت کچھ نہ ملا وہ بھی میری نظور سے نکلا
آیا پاک و صاف ہو کر ادھر وہی راہ صدور سے نکلا
چلا جو بھی اﷲ کے عشق میں وہ بھی طور سے نکلا
شرط نہیں ہے کچھ کعبے سے نکلا یا دور سے نکلا
کرے گا جب تصور دل پر اسم اﷲ تو زمین ہموار ہو گی
لکھے گا کاتب جب نوری حروف سے پھر کھیتی تیار ہو گی
پھر ڈالا گر مرشد نے نطفہ عجب بہار ہو گی
اس نطفے سے بنے گا طفل نوری جسکی پرورش زانوار ہو گی
نکلے گا جب بطن باطن سے عرصہ بعد یہ طفل نوری
اسی کو ہو گی حاصل پھر مجلس حضوری
ہو کے حضرت علیؓ کے حوالے کرے گا تعلیم پوری
پا کے تعلیم پھر ہو گی اس کی غوثی یا سلطانی منظوری
ملتا ہے لاکھوں میں ایک کو ہوتا ہے ان لطیفوں کے علاوہ
ہوتا ہے بیابان میں شیر باطنی گر اڑا تو شہباز کہلایا
خوراک ہے اس کی ذکر و فکر کنگرہ عرش پر آشیانہ بنایا
اس میں ہوتی ہے طاقت اتنی جلے بغیر ہی روبرو ہو آیا
نظر آتا ہے کبھی یہ سالک کی صورت میں کبھی مرشد کی صورت میں
ہوتی ہے اس کی صورت جدا دکھاتا ہے جو بوقت ضرورت میں
سمجھ نہ بیٹھنا کہ تجھ سے کوئی خواب کہہ رہا ہوں
یا نشہ پی کر تجھ سے بے حساب کہہ رہا ہوں
کہانی ہے کسی زمانے کی یا قصہ کتاب کہہ رہا ہوں
جو بھی کہہ رہا ہوں نصاب در نصاب کہہ رہا ہوں
مرتا ہے آدمی چلی جاتی ہے روح عالم برزخ تک
یہی جُسّے ہو کے آدمی رہتے ہیں قبر تک
ناسوتیوں کے جُسّے مر جاتے ہیں عرصہ کچھ خبر تک
مرتے نہیں اﷲ والوں کے جُسّے حشر تک
وہ پھر قبروں سے نکل کر دنیا والوں کی امداد کرتے ہیں
پائیں کسی کو مصیبت میں تو اﷲ سے فریاد کرتے ہیں
کر رہے ہیں کام جُسّے ولیوں کے لوگ ولیوں کو یاد کرتے ہیں
آ جاتی ہے روح ولیوں کی بھی جب جُسّوں کو ارشاد کرتے ہیں
ایک عالم آنے والی ایک ہے عالم جانے والی روحوں کا
جُسّوں کو ملتی ہے قبر میں روحوں کو ملتی ہے برزخ میں سزا
پکڑے گئے کہ وہ بھی تھے روحانی کے مشیر و آشنا
اس کو کون پوچھے تھا ڈھانچہ ہڈیوں کا جو گُھل گیا
ملا تھا قطرہ نور کا کر کے ترقی لہر بن گیا
آئی طغیانی ٹکرایا بحر سے اور بحر بن گیا
نہ رہی تمیز من و تن کی دل تھا جو دہر بن گیا
بس گیا علم اس پہ اتنا کہ شہر بن گیا
اس نقطہ کی تلاش میں کتنے سکندر عمریں گنوا بیٹھے
خوش نصیبی میں تیری شک کیا گھر بیٹھے ہی یہ راز پا بیٹھے
کہا تھا خاقانی نے جب ہم بھی تیس سال رلا بیٹھے
ہوئے جب یکدم باخدا تخت سلیمانی بھی ٹھکرا بیٹھے
یہی سوچ کر اﷲ نے آدمی بنایا تھا
اسی بے وفا کو پھر سجدہ بھی کرایا تھا
اسی کے لئے لوح و قلم بنایا تھا
مگر اس بے نصیب نے خود کو بھی نہ آزمایا تھا
نماز میں آئے گا نظر جب قلب پہ لکھا اسم اﷲ
بھول جائے گا تو اس وقت دنیا و مافیہا کو قسم اﷲ
کتنے دیئے سجدے رہے گا نہ یاد پا کے رسم اﷲ
پھر ہی ہوگی پرواز کی تیاری کر کے آغاز بسم اﷲ
ملے گا پھر ثبوت تجھے تیری عبادت کا قدم بہ قدم
دیکھ سکے گا پھر تو نور کی لہریں دم بہ دم
عجب نہیں کُھل جائے راز مخفی بھی تجھ پہ پیہم
گر ہوش میں رہا پھر یاد آئیں گے تجھ کو ہم
بتایا ہے جو کچھ تجھ کو اس کو عمل اکسیر کہتے ہیں
پڑھتا ہے جب دعوت کوئی اس کو عمل تکسیر کہتے ہیں
آجائے رجعت میں اکسیر و تکسیر سے اس کو بے تقصیر کہتے ہیں
گر نہ پایا کچھ ان سے اس کو بے تقدیر کہتے ہیں
پڑا جس پہ لعنت کا طوق اسے ہی عزازیل کہتے ہیں
پھر خاکی کیا ناری کیا اسے ہی ذلیل کہتے ہیں
وہ صوفی کیا مفتی کیا اسے ہی بے دلیل کہتے ہیں
نکلا پھر زبان سے کچھ لفظ اسے ہی قال و قیل کہتے ہیں
دیکھے سزا گر سِجیّن میں روحوں کی زندگی سے بیزار ہو جائے
پھٹ جائے دل تیرا خوف سے شاید مغز بھی بیکار ہو جائے
کُھلے راز تجھ پہ آدمیت کا جب یہ دیدار ہو جائے
ڈھونڈ کسی کامل کو کر دیدار شاید پھر تو ہوشیار ہو جائے
بھٹک کے راہ پہ آیا وہ بھی انسان ہوا
ورنہ جانور ہے جو جمعیت پریشان ہوا
دیکھی نہ جس نے راہ قبور وہی انجان ہوا
قبر بھی کرے نہ اسے قبول جو بے اشنان ہوا
روح بھی ایک دل بھی ایک نہیں فرق کچھ انسانوں میں
فرق ہے گر ان کی زبانوں میں اور ایمانوں میں
چلا جو ایمان پر پہنچا وہی خفیہ خزانوں میں
ورنہ اے بندے تو نہ انسانوں میں نہ حیوانوں میں
ہوتا ہے مقام تیرا فرشتوں سے اونچا کہ وہ ناز کریں
کبھی ہوتا ہے مقام تیرا شیاطین سے بھی نیچا کہ وہ عار کریں
کری جس سے شیطان نے بھی نفرت اسے کس نام سے پکار کریں
پھر بھی دعویٰ امتی کا اُف تیری عقل کیسے بیدار کریں
انسان افضل کتا ارذل گر کوئی نہ حقیر ہوتا
ہوتا گر مقابلہ کتے سے تیرا ہر کتا قطمیر ہوتا
دیکھتا گر کتے کو جنت میں تو کتنا شرم گیر ہوتا
سچ بتا تو بہتر ہوتا یا کتا بے نظیر ہوتا
ایسا کوئی کتا ہی نہیں جو مالک کی حفاظت نہ کرے
انسان ہی ہے سرکش جو خالق کی عبادت نہ کرے
نہ جھکائے سر کو قدموں میں نفس کو بھی ہدایت نہ کرے
پھر بھی گلہ ہم سے تیرا کہ ہماری شکایت نہ کرے
سورج چڑھا تو نکلا پیٹ کے جنجال میں
گھر آیا تو پھنسا بیوی کے جال میں
سویا تو وہ بھی بچوں کے خیال میں
عمر یوں ہی پہنچ گئی ستّر سال میں
ہوا جب کام سے نِکمّا لیا دین کا آسرا
اب کہاں ہے خریدار تیرا بیٹھا جو حسن لٹا
بے شک کر ناز نخرے اور زلفوں کو سجا
وقت تھا جو تیرا وہ تو بیٹھا گنوا
کر کے ذکر چار دن بن گیا زنجہانی ہے
دھوکہ ہے تیری عقل کا جو ہو گئی پرانی ہے
اب کچھ توقع اﷲ سے یہ تیری نادانی ہے
قابل تو نہیں گر بخش دے اس کی مہربانی ہے
ڈوبنے لگا فرعون جب وہ بھی ایمان لے آیا تھا
کر کے دعویٰ خدائی وہ بھی پچھتایا تھا
کر لی توبہ آخر میں وہ وقت ہاتھ نہ آیا تھا
جس وقت کا قدرت نے بندے سے وعدہ فرمایا تھا
ہر شجر با ثمر نہیں ہے ہر بوٹی با اثر نہیں ہے
ہر طفل بہ مکتب نہیں ہے ہر بندہ باشر نہیں ہے
ہر پتھر اصل نہیں ہے ہر فقر ِعطر نہیں ہے
فرق ہے تجھ میں سارا کہ تیری نظر نہیں ہے
شیشے کو تو ہیرا بنائے تو قصور کس کا
ان آنکھوں کا علاج نہ کرائے تو قصور کس کا
میری ان باتوں پہ یقین نہ آئے تو قصور کس کا
خود بھی کعبہ ڈھونڈنے نہ جائے تو قصور کس کا
٭٭٭٭٭٭٭
رکھ کے کفن سر پہ غاروں میں گھر بنائے بیٹھے ہیں
نہ چھیڑ ساقی ہم کو ہم تو جگر کھائے بیٹھے ہیں
نہیں ہے خوف مرنے کا اِدھر ہی قبر بنائے بیٹھے ہیں
رکھ کے تکیہ اﷲ پر صبر میں آئے بیٹھے ہیں
نہ سمجھ ہم کو شرابی ہم تو زہر کھائے بیٹھے ہیں
رکھ کر خبر زمانے کی بھی اپنا آپ گنوائے بیٹھے ہیں
اس نازنین کا بھی اﷲ حافظ جو ہمارے حق میں آئے بیٹھے ہیں
قسم ہے رب تیری تیری خاطر سب کچھ بھلائے بیٹھے ہیں
خبر نہیں ہے ان کو ہم کیا راز پائے بیٹھے ہیں
کہاں ہیں کیا ہیں اور کیا حال بنائے بیٹھے ہیں
ہو چکا ہو گا ادھر ماتم میرا یہی سمجھ میں آئے بیٹھے ہیں
کیا خبر ان کو تیرے عشق کی قسم کھائے بیٹھے ہیں
لٹا ہی دی جوانی ہم نے آخر تیرے جبلوں میں
نفس کو مارا ہوس کو بھی ان کھبلوں میں
تھی جتنی بھی طاقت آزما دی ان صدموں میں
پھر بھی شبہ ہے تجھ کو میرے ان قدموں میں
کر کے تمام یہ نقطہ عثمان مروندیؒ بھی شہباز ہوئے
شاہ لطیفؒ بھی بری امامؒ بنے باھوؒ بھی پرواز ہوئے
کر کے آغاز ہم بھی یہ دھندا واقف راز ہوئے
رہا تھا گلہ قسمت کا ہم کو جو آج سرفراز ہوئے
ناز تو ہے مگر منتظر دور و افتاد کے قابل نہ تھے
آ گئے اس کی قید میں جس صیاد کے قابل نہ تھے
چھوڑ آئے یتیم جن کو وہ بیداد کے قابل نہ تھے
رل گئیں وہ معصوم جانیں جو فریاد کے قابل نہ تھے
ڈھل گئے وہ سائے کنول کے جو برباد کے قابل نہ تھے
کیا ہے شکوہ ہم سے ہم ان کی یاد کے قابل نہ تھے
قابل نہ تھے ان کی زلفوں کے ہار و سنگار کے قابل نہ تھے
ڈالا ان کو اس پھاہی میں جس دیوار کے قابل نہ تھے
دن رات بہتے ہوں گے آنسو وہ زار و قطار کے قابل نہ تھے
کاش وہ بے داغ دل فراق یار کے قابل نہ تھے
اِدھر تو سرفراز ہے اُدھر سارا جہاں لٹ گیا
تھیں جن کو وابستہ ہم سے امیدیں انکا سارا ارمان لٹ گیا
لٹ گئی ان کی بھی جوانی اور زمین و آسمان لٹ گیا
تھیں ان کے دل میں بھی تمنائیں بہت جن کا کارواں لٹ گیا
یاد نہ کر ماضی کو اے شکستہ دل جب نام و نشان مٹ گیا
کیا قصہ گل یاسمین کا جب وہ گلستان مٹ گیا
ملے گی تجھے کہاں سے وہ خُو جب وہ پرستان لٹ گیا
کیا ہے تعلقہ انسان سے انسان کا جب انسان مٹ گیا
٭٭٭٭٭٭
No comments:
Post a Comment