Monday, December 27, 2010
PAGE 2
عشق ہوا کیسے کچھ سمجھ میں بھی آیا نہیں
نہ پوچھا کسی سے کسی نے بھی سمجھایا نہیں
مرشد تھا باطنی شائد چراغ اس نے جلایا نہیں
تجھ سے کیا شکوہ مرشد بھی اب تک سامنے آیا نہیں
گر کوئی مرشد کا نام پوچھ پائے پھر میں کیا کروں
عشق تیرا دشت و جبل میں رلائے پھر میں کیا کروں
کیا اقرار جب ہم نے جلنا نبی پاک نے تصدیق کی
باھُوؒ بنے ضامن تب اللہ نے نور کی توفیق دی
پھر دھکیلے گئے پل صراط پر یہ بھی بخشش عجیب دی
جان کا خطرہ ایمان کا بھی کتنی کھائی قریب دی
بارہ سال سے پہلے یہ پل نہ ختمائے پھر میں کیا کروں
عشق تیرا دشت و جبل میں رلائے پھر میں کیا کروں
کتنا مہنگا ہے عشق تیرا یہ تو کسی نے بتایا نہ تھا
ہو جائیں گے زندہ درگور کوئی اس لئے میں آیا نہ تھا
دن رات روتے رہیں گے میں نے اتنا جرم کمایا نہ تھا
جرم ہے تیرے عشق کا جو میری سمجھ میں آیا نہ تھا
عشق کی آگ جلا کے عشق کو رلائے پھر میں کیا کروں
عشق تیرا دشت و جبل میں رلائے پھر میں کیا کروں
ہو گئے قیدی ہم جبلوں کے اک دلدار کی خاطر
پی رہے ہیں خون جگر ان دیکھے دربار کی خاطر
سولی پہ لٹکے گئے عشق کی تار کی خاطر
جان بھی نہ نکلے اک تیرے دیدار کی خاطر
روح کو ادھر بھی چین نہ آئے پھر میں کیا کروں
عشق تیرا دشت و جبل میں رلائے پھر میں کیا کروں
٭٭٭٭٭٭٭
جس ذکر سے دھڑکے نہ دل وہ ذکر کیا
گر آنکھوں سے نکلیں نہ آنسو وہ فکر کیا
دیدار نور ہو نہ میسر وہ شکر کیا
مر نہ جائے تیرے عشق میں خاکی وہ بشر کیا
پہچان نہ سکے جو حق و باطل کو وہ نظر کیا
زندگی گزاری تیرے امتحانوں میں اور صبر کیا
غاروں میں پگھلتے رہے اب خوف قبر کیا
عشق میں عقل ہی نہ رہا پھر حساب حشر کیا
کتنی انمول تھی یہ زندگی جو مدت تک حیوانی میں گزری
پتہ نہ تھا راہ و منزل کا جو بھی گزری پریشانی میں گزری
نفس کی خدمت کرتے رہے دن رات تھی شےطانی میں گزری
کتنے ہوتے ہیں خوش نصیب وہ لوگ جنکی عمر ذکر سلطانی میں گزری
٭٭٭٭٭٭٭
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment