Monday, December 27, 2010

PAGE 3


گر ہر سانس سے نکلے نہ اللہ ھو وہ عبادت کیا
جھلک نہ پڑے ریاضتوں کی وہ ریاضت کیا
گھسیٹتا رہے نفس دنیا میں وہ آدمیت کیا
بسا نہ سکے گر دل پہ کعبہ وہ انسانیت کیا
بس جائے جس دل میں کعبہ وہی ملائکوں کا سجدہ گاہ ہے
ہوتا ہے اسی کا عرش پہ ٹھکانہ وہی تو عید گاہ ہے
اسی کی جنبش سے ہلتا ہے عرش معلّٰی وہی اسرار آگاہ ہے
جس نے پایا گر نہ یہ رتبہ وہی خام نگاہ ہے
اے دل تو انجانوں کو محرم راز نہ بنا
ان عاقلوں کو یہ بھید نہ سنا
پا نہ سکے اس راز کو عیب کی نظر نہ لگا
یہ تو دل کا سودا ہے ہے جو نصیب اولیائ
٭٭٭٭٭٭٭


نماز و روزوں سے ملتا نہیں یہ ہر گز خام خیالوں کو
چلوں اور وظیفوں سے بھی ملتا نہیں یہ ناسوتی پیالوں کو
دینی پڑتی ہے قربانی مال و جان کی اس راہ پہ چلنے والوں کو
پھر بھی قسمت سے ملتا ہے یہ سودا ان صابرین جیالوں کو
لکھ دل پر اللہ ھو تصور سے سبق سیکھ جلالیت کا
پھر لکھ سینے پر محمد بسا یہ بھی نقطہ جمالیت کا
دل ہوگا تب صدق آئے گا مزہ پھر شریعت کا
ورنہ نہیں ہے ثبوت کچھ تیری نمازوں کی قبولیت کا


پہن کر چوغے و کلاوے فقیر بن گئے تو کیا
پڑھ کر تصوف پیر بن گئے تو کیا
کر کے یاد حدیث فقہ مُلاّ بے تقدیر بن گئے تو کیا
عمل نہ کیا فرعون بے تقصیر بن گئے تو کیا
اسلام عمل سے ہے زبانی قیل و قال نہیں
مریدوں کا کیا پیروں کا بھی کچھ حال نہیں
ڈھونڈ لیں کسی کامل کو اتنی تو مجال نہیں
کر رہے ہیں اسلام کے ٹکڑے اتنا خیال نہیں
دعویٰ پھر بھی ہے ان کو اللہ سے رسائی کا
رہزن بنے بیٹھے ہیں رستہ دکھاتے ہیں شناسائی کا
خود تو بے خبر ہیں پیالہ پلاتے ہیں اولیائی کا
آیا جو ان کے شکنجے لگ گیا ٹیکہ شیطان کبریائی کا


کر کے حج کئی دل قابو میں نہ آیا تو کیا مزہ
پڑھ کے قرآن بھی کچھ عمل میں نہ آیا تو کیا مزہ
کھا کے طمانچہ بھی ہوش میں نہ آیا تو کیا مزہ
پہنچ کر قبر میں بھی فتنوں سے باز نہ آیا تو کیا مزہ
رکھ کے داڑھی عیب چھپایا تو کیا مزہ
رگڑ کر ماتھا مُلاّ کہلایا تو کیا مزہ
کھا کے زہر گر پچھتایا تو کیا مزہ
لٹا کے جوانی خدا یاد آیا تو کیا مزہ
ہو گیا جب دل دو ٹکڑے اس کا جڑ جانا کیا
ہو جائے چھید گر بوتل میں اس کا بھر جانا کیا
ہو گیا بند جب در توبہ پھر دامن پھیلانا کیا
کیا کچھ نہ عمل خالی ہاتھ ادھر جانا کیا


ادھر تو جاتے ہیں اعمال اپنے بے عملوں کی جا نہیں
پاتے ہیں سزا اعمال گندے کس کو یہ پتہ نہیں
پڑھ کے کلمہ بن بیٹھے امتی امتی ہونا سستا نہیں
خواب میں بھی نہ ہو سکے دیدار مصطفی امتی بنتا نہیں
فرض ہے تیرا پیارے محمدؐ کو اک بار تو دیکھ
علم سے دیکھ عمل سے دیکھ سوتے یا بیدار دیکھ
سمجھ میں نہ آئے گر یہ بات کوئی کامل شب بیدار دیکھ
پڑھ علم دیدار اس سے پھر دیدار ہی دیدار دیکھ
آزمایا نہ جس نے پیر کو خود ہی آزمایا گیا
ملا گر نفسی مرشد ایمان کا صفایا گیا
رکھ کے تکیہ مرشد پر بیٹھے رہے وقت سارا ضائع گیا
کہ ہوتے ہیں جن کے خام مرشد ابلیس کے ہاتھ آیا گیا


ہو گئی کمر کبڑی تیری درجہ عبادت نہ ملا
مارے گئے اندھیرے میں درجہ شہادت نہ ملا
بھٹکتے رہے دربدر کمرہِ عدالت نہ ملا
ملا نہ رستہ ہرگز کہ باحضور باارادت نہ ملا
شریعت ہے فرضِ اوّلین اسی سے زندگی بنتی ہے
پھر شریعت تیل ہے طریقت کا جس سے گاڑی چلتی ہے
اسی کے دم سے حقیقت و معرفت کی رحمت برستی ہے
کہتے ہیں جنیدؒ بے شرع پر ابلیس کی جھلک ٹپکتی ہے
معافی ہے شریعت کی اس وقت جب دیدارِ اللہ ہو جائے
اسکی ہر بات اللہ ہر نظر اللہ گھربار اللہ ہو جائے
نظر سے بن جائے مٹی سونا زبان کھولے انتظار اللہ ہو جائے
ہوتا ہے پارس وہی جس کو رگڑے خریدار اللہ ہو جائے
ہوتا ہے وہی دنیا میں نائب اللہ کا چاہے شاہ کو گدا کر دے
جہاں بھی چاہے بُلالے ملائکوں کو چاہے جس کو تباہ کر دے
اسے کیا اہمیت نیک و بد کی چاہے جس کو باخدا کر دے
اسے کیا ضرورت سجدے کی جو روبرو جا کے سجدہ کر دے


یہ تو وہ صدی ہے جہلا بھی علماء بنے بیٹھے ہیں
جسم پر چیتھڑے چل رہی جوئیں اور باخدا بنے بیٹھے ہیں
بہت ہیں ایسے بھی عالمِ سُو جو اولیاءبنے بیٹھے ہیں
یہ تو وہی فرعون ہیں جو خدا بنے بیٹھے ہیں
نہ اٹھا پردہ کہ یہی دورِ یزید ہے
سنبھل جائے یہ مسلم تجھے کیسے امید ہے
پا جائے اسرارِ حق اسکی عقل سے بعید ہے
دلوں پہ لگا کے قفل نفس کا مرید ہے
حُبِّ دنیا لذّت دنیا نفس کی یہ غذا ہے
مقام ہے اس کا عالم ناسوت جنّات سے اس کا رشتہ ہے
نورِ قرآن نورِ عرفان یہ دل کی غذا ہے
مقام ہے اس کا عالم ملکوت فرشتوں سے اس کا تعلقہ ہے
گر دل کو برباد کیا تو نفس کو شاد کیا
گر نفس کو برباد کیا تو دل کو آباد کیا
پھُولا پھَالا دل تو روح کو پھر پاک کیا
روح پہنچی عالم جبروت میں جب سینہ چاک کیا


دلوں میں شیطان بسا کے پھر بھی ہے دعویٰ ایمان اللہ
ہو رہی دخترفروشی اُدھر ِادھر سہارا قرآن اللہ
چمگادڑ بنے بیٹھے ہیں پھر بھی تکیہ کہ ہے رحمن اللہ
دنیا کو دھوکہ خدا کو بھی سمجھے ہے شاید انجان اللہ
تکیہ ہے اس کی رحمانی کا نادانوں کو یہ پتہ نہیں
وہ تو قہار ہی قہار ہے جب تک اس کے آگے جھکا نہیں
تجھے کیا خبر اس کی غفّاری کی جب اس راہ پہ چلا نہیں
جائے تو جنت میں یا جہنم میں اسے کچھ پرواہ نہیں
جب منہ موڑا ادھر سے سچ کہا دہریوں نے خدا نہیں
کیسا سمیع و بصیر ہے کچھ بھی سنتا نہیں
قریب ہے شاہرگ کے اسے کچھ بھی پتہ نہیں
بیزار ہوئے محمد کاش تو نے پایا وہ رستہ نہیں
گر جھک جائے تو ادھر تجھ میں اور مجھ میں پردہ کیا
پہنچا جب میرے نشیمن میں پھر میں کیا اور خدا کیا
فاذکرونی اذکرکم پھر تجھے اور تمنّا کیا
تب ہی پوچھے گا خدا اے بندے تیری رضا کیا


اے بندے سمجھ تو کیوں ہوا دنیا میں ظہور تیرا
تو وہ عظیم تر ہے خدا بھی ہوا مشکور تیرا
عش عش کرتے ہیں کروّبیاں دیکھتے ہیں جب شکستہ صدور تیرا
فخر ہوتا ہے اللہ کو بنتا ہے جب جسم سراپا نور تیرا
کہتے ہیں پھر اللہ اے ملائیکو میرے بندے کی شان دیکھو
ہوا تھا جسں پہ انکار سجدہ اب اس کا ایمان دیکھو
جنبش پہ ہے جس کا دل ایک سرا اِدھر ایک لامکاں دیکھو
ناز ہے تم کو بھی عبادت کا مگر عبادت قلب انسان دیکھو
کاش تو شیطان تو نہ تھا جو شیطان ہوا
آیا اللہ کے امتحانوں میں تو بے ایمان ہوا
پڑا ہوس دنیا کے چکر میں تو بے عرفان ہوا
تو وہ چمکتا ہوا ستارہ تھا جو بے نشان ہوا


( نوٹ: مشکور سریانی میں دوست کو بولتے ہیں)

No comments:

Post a Comment