Monday, December 27, 2010

PAGE 7


کر کے عمر ضائع پوچھتا ہے اب راہِ شبیرؓ کیا ہے
کیا ہے جنازہ تقدیر کا اور راہ تکسیر کیا ہے
کون سی وہ زندگی ہے کہ حلال ہو جاؤں
ملتی ہے وہ چھری کس کوچے سے اور تکبیر کیا ہے
کہتے ہیں بازار مصطفی بھی ہے اس جہاں میں
خریدار ہے خدا جس کا بتا وہ عملِ اکسیر کیا ہے
ہٹ جاتے ہیں حجاب دل کے جس کی دید سے
ہو گئے نابینے بھی محرم بتا وہ سرمہ ¿ ضمیر کیا ہے
جس کی کرن سے ہیں نور افشاں قبریں فقیروں کی
ہیں یہ شاخیں جس شجر طوبیٰ کی بتا وہ بدرِ منیر کیا ہے
ہو نہ پریشان پیارے ہے کچھ ارادت تو سن
بازار مصطفی یہی عمل تحریر ہے اور تقریر کیا ہے
آزما لے تو بھی گوشت کے لوتھڑے کو ہے جو دل
آئے خبر یہ دل کیا تو کیا اور تقدیر کیا ہے
ہوا نہ جب تک غوطہ زن اس دریائے توحید میں
سمجھے گا کیا شان فقر ہے کیا اور سلسلہ دستگیرؒ کیا ہے


نہ چھیڑ قصّہ باد ِنکہت کا ویرانے میں اے دیوانہ دل
ڈھونڈ نہ تو شہر خموشاں میں وہ شہنشائیاں اے مستانہ دل
رکھ نہ تمنا کچھ ان لاشوں سے ستاروں کے علاوہ
تھا بے شک خاکی تو ہو گیا اب جو عرشیانہ دل
نہ رکھ امید اس ہم سفر سے کچھ اے محبوبہ
تھا جو کبھی شیدائی تیرا تھا وہ پرانا دل
نہ رکھ تو بھی آس کوئی اے میری جنت
پالا تھا تو نے آغوش میں ہو گیا وہ بیگانہ دل
بنا کے لحد میری رو لینا دو چار دن
تھا جو سپوت تیرا مِٹ گیا وہ فسانہ دل
کر دینا بھرتی یتیم خانے میں بھی ان کو
کہ مر گیا باپ ان کا ڈھونڈتے ڈھونڈتے خزانہ دل


کیا دیکھو گے میرا حال فقیری اور حال ظہیری
ملتی نہیں بت کو اجازت ہو گیا وحشیانہ دل
ٹک گئی نظر اس کی اک دور دربار پر
مڑے گا نہ کبھی جلے بغیر یہ پروانہ دل
کر بیٹھا عشق اک بے پرواہ سے انجان یہ
تڑپتا رہے گا بھٹی میں برسوں یہ خاقانہ دل
آ جائے باز ضد سے نہیں ہے ممکن اے ریاض
کہ دے چکا ہے تحریر سمیت گواہاں یہ جلالانہ دل
٭٭٭٭٭٭٭


آیا تکبر میں گر کوئی عابد و زاہد ہوا بے شک تباہ
یاد آیا نماز میں گر دنبہ ہے وہ بے راہ
منافق ہے وہی آیا جو بے شرع فقرِ محمّدی میں
ہوا پیر غوثی قطبی کے علاوہ ہے یہ بھی کبیرہ گناہ
الجھا جاہل گر مسئلوں میں گیا دین حق سے
دیکھا نہ قرآن زندگی میں یہی ہے شرک خدا
بنا مرشد کے مولوی ہو نہیں سکتا مولائے روم
کہ باطنی علم کے بغیر مولویت ہے فتنہ بڑا
ہوا جو بھی نفس و زن کا مرید وہ
کچا ہوا زبان کا ہوا ایمان سے بھی جدا
رہا شبہ جس کو اولیاء انبیاء پر
ہوا فیض و رشد سے محروم وہ خیرہ نگاہ


ہوا جو عالموں کا دشمن دین و نبی کا دشمن
نور ہے درخشاں یہ ہو نہ گر باطن سے جدا
کیا عمل گر بقائے دنیا کی خاطر
ہوا محدود دنیا تک مرا خالی گیا
کر عمل وہ ہو جو سہارا آخرت بھی
نہیں ہے بہتر کوئی عملِ اکسیر کے سوا
ہے یہ طریقہ محمدی قبضے میں غوث پاک کے
چشتی نقشبندی و سہروردی ہیں سب اس کے تلے سایہ
ہے جہاں سے ابتدا اس کی ان کی وہ انتہا
ہے گر مقصود منزل لے لے اس کی آغوشِ پناہ
ہوتا نہیں وہ خالی ہے جو وابستہ اس سلسلے سے
ابھرے پر پڑھا جب دل نے یا شاہ محی الدین شیا ¿ً ﷲ
بن بیٹھے ادھر کئی چرا کے راز قادری
پائے گا حق بات میری ملا نصیبے سے کامل رہنما
٭٭٭٭٭٭٭


سوچا تھا اک دن ہم نے یہ وجہ تنزل کیا ہے
رہتے ہیں سرگرداں ہر دم یہ زندگی بے منزل کیا ہے
کون سی خامی ہے وہ رہتے ہیں پریشان ہر دم
سُدھر جائے جس سے دین و دنیا وہ عمل کیا ہے
جھانکا جو گریبان کو نظر آئیں ہزاروں خامیاں
روئے بہت آیا جو سمجھ میں مقصدِ اصل کیا ہے
نکلے پھر ڈھونڈنے رہنما کو اس اندھیر میں
بھٹکتے رہے برسوں سمجھ نہ تھی پیرِ اکمل کیا ہے
لی بےعت پہلی ہم نے بدست پیر دیول شریف
ہوا نہ فیض کچھ نہ سمجھے تھے وہ یہ تمناّئے دل کیا ہے
لے کر اجازت ان سے کیا رخ پھر گولڑے کا
سمجھ نہ سکے وہ سجادہ نشین یہ نسل کیا ہے


ہوئے بیزار گدیوں سے لیا سہارا خانقاہوں کا
کہا جام داتارؒ نے نچھاور ہیں گل ہزاروں تو گل کیا ہے
ہوئی مایوسی بڑی دیکھا جو تقدیر کو اتنا بے محمل
سوئے ہوئے تھے کہا بریؒ نے اٹھ بتاؤں تقدیرِ َرمل کیا ہے
ڈھونڈ رہا ہے تو جسں نقطے کو تہہ دل سے
چھوڑ دے دنیا یہ کہ بتاؤں اس کا حل کیا ہے
چھپ کے دامن میں باطنیوں کے سیکھا کچھ علمِ لدُنی
آ بتاؤں تجھے بھی دنیا میں اصل اور نقل کیا ہے
٭٭٭٭٭٭٭


کہا نفس نے کھائیں گے آج چاول کچھ
کہا دل نے اے بیٹے چنوں پہ ہی گزارہ کر
گھومنے دے آج ہم کو پرستان میں کسی
کہا دل نے قبروں میں ہی گھوم گھام کے گزارہ کر
دیکھنے ہی دے کسی حور کو او ظالم
کہا دل نے ان مینڈکوں کا ہی نظارہ کر
ہوا پریشان نفس دیکھی جو حالت ناتوانی
بلایا ابلیس کو کچھ تو مدد دوبارہ کر
دے رہا ہے عذاب مجھے بھوک و پیاس کا یہ
خستہ حالی پہ میری اب ماتم نہ گوارا کر
جلتا ہوں میں نور ایمان سے پھر بھی
نصیحت ہے میری اندر پھر شور شرارہ کر
کروں گا مدد تیری ہوا جب تک ممکن
رکھ کے تلاش موقع کی پھر ہمیں پکارا کر
لگا نہ دھبہ نفسانیت پر ہرگز جانی
ہم تیرے تو ہمارا اس کو بھی ہمارا کر


ملا جس سے ایمان کچھ گرا وہ ثاقب شہاب تھا
لرزی مٹی جس کے خون سے وہ محافظ نور کتاب تھا
اَٹ گیا پھر دھول میں وہ مرغِ لاہوتی
کر نہ سکا پرواز پھر تشنہ دنیا و مآب تھا
ہوگئے پھر پیوست اس کے بیضے خاک سے
ہوا پھر وہ بھی خاکستر جو شعلہ ¿ آفتاب تھا
سمائی اس میں وہ بو آئی پھر وہ خُو
بھولا سبق وہ لایا جو ٹکڑا نصاب تھا
ڈھونڈ کے آسان حیلہ مذہب میں ترمیم کی
نکلے پھر حیلے کئی ملا و مفتی بے حساب تھا
کچھ اہل سنت سے جدا کچھ شریعت سے دغا
اکھاڑ پھینکا ان شاخوں کو کہ ان میں حجاب تھا
کہا جہلوں کو پھر ہیں ہم ہی شافع امت
آئے ریا کار کئی کہ عمل مسلم جو کمیاب تھا
وہ مذہب ہوئے تھے حسینؓ قربان جس کی طرح
ہوگیا مدفون اب شناس حق جو نایاب تھا


کہا سائنس نے میں عقل و تدبیر تیری اے بے رعیا
بولی روحانیت میں قسمت و تقدیر تیری اے ناخدا
یہ رفتار دنیا میرے دم سے ایٹمی دور میرے قدم سے
یہ ٹیلی سلاسل یہ کاریں اور سیارے میرے رَزم سے
سکھائی میں نے انسان کو تہذیب اور سکھایا علمِ جہاں
سکھایا پھر اس کو ہنر میں نے پہنچا یہاں سے وہاں
حکمت میں ہاتھ میرا سپاہت تک میرا ہاتھ ہے
لیکر جرّاحی سے تیری سلطنت تک میرا ہاتھ ہے
کاشت کی زمین میں بھی لیتے ہیں کام مجھ سے
گدا سے لیکر شاہ تک ہیں سبھی غلام مجھ سے
بنایا فضا کو پاؤں تلے چاند کو بھی پاؤں تلے
رہا روشن نام اس کا آیا جو میرے پرچم تلے
نسواں کو بھی دی آزادی اور کلبوں میں نچایا
پڑھ کے سبق میرا اس نے تجھے اُلّو بنایا


میں ہوں رواں دواں اس دنیا کی تقدیر بیشک
ہوا جو بھی منکر میرا پڑی اس کو دنیا کی زنجیر بیشک
ہے بیشک زنجیر تو تدبیر تو ہیں جو روحانیت سے خالی
رہتا ہے اس کا قدم سر تو ہوتا ہے جو میرا سوالی
تیرا نشانہ چاند تک بحر تک یا زمین تک
میرا مرغ رہتا ہے سدا عرشِ بریں تک
مشرق و مغرب میرے قدموں میں جب بھی چاہوں
چودہ طبقوں کا کشف میری نظر میں تجھے کیا بتاؤں
تیرا سیارہ گر مریخ پر میری نظر لوحِ محفوظ پر
تیرا رابطہ برقی رو سے میرا سلسلہ تجلّئی نور پر
تیری یہ بتیاں زمین پر جن کی روشنی پائے گل تک
میری کہکشاں آسمان پر پڑے تو تہہ دل تک
ہے تو محتاج میری گر ایمان و انصاف سے سوچے
پانی سے رو تیری تیل سے سیارہ ہوا سے آواز روکے
پلا جو تیری آغوش میں بے شک دنیا میں شاہ ہوا
ہوا جو وابستہ مجھ سے وہ اک دن باخدا ہوا


نہ تاثیر گفتار نہ طاقت رفتار نہ عروج کردار تیرا
نہ خوف قبر نہ یاد خدا تیری یہ مسلمانی کیا ہے
پڑھ کے کافر اک ہی بار لاالہ ہو گیا خُلدی
نہیں اثر دھڑا دھڑ لاالہ ؤں سے یہ ناتوانی کیا ہے
مال مست حال مست ذال مست بن نہ سکا لعل مست
بیٹھے ہو آڑ میں دین کی یہ سبق بے ایمانی کیا ہے
نہ شب بیدار تو نہ پرہیز گار تو نہ حق دار تو
سمجھتا ہے خود کو مومن اور نادانی کیا ہے
شکم سیری میں دعویٰ فرعونی فاقہ کشی میں ہوسگانی
فریاد نکلی مصیبت میں بھی نہ اور کِبر نفسانی کیا ہے
کھاتا ہے بیل بھی سوتا ہے بیل بھی طرز تو
نہ وہ نمازی نہ تو نمازی پھر فرق جسمانی کیا ہے
مارا گیا ابلیس اک سجدہ نہ کرنے سے
منکر ہی منکر تو سجدوں کا پھر تکیہ رحمانی کیا ہے


پڑھا کلمہ رسماً ہوا مسلمان رسماً آیا ایمان رسماً
نہ مانے احکام فرقانی پھر یہ ورق گردانی کیا ہے
بہلاوہ ہے دل کو یارو دھوکہ مذہب کو یارو
مانی نہ گر تاج پوشی پھر گل افشانی کیا ہے
کہا یاروں نے نہیں فائدہ کچھ مُلاّ سی عبادت کا
نبیڑ اپنی تو ان سے کیا یہ بہانہ شیطانی کیا ہے
کہتے ہیں پھر ہے عبادت دلوں میں ہمارے پوشیدہ
ہیں جو پوشیدہ دل تو کیا جانے ان کی زندگانی کیا ہے
کہا دل نے اللہ ھو ملا ثواب بہتّر ہزار قرآنوں کا
ہوا ھُو سے پھر باھُو کاش سمجھے تو ذِکر سلطانی کیا ہے
دل تو ہے اک لوتھڑا ہو نہ گر لطیفہ قلب زندہ
باہر ہے عقل سے بات تیری کہ لطیفہ انسانی کیا ہے
آتا ہے جب حرکت پہ یہ سینے میں ذکر سے
عش عش کرتے ہیں کرّوبیاں کہ مقامِ لامکانی کیا ہے
٭٭٭٭٭٭٭

No comments:

Post a Comment