کہا اقبالؒ نے درد دل کے واسطے آیا آدمی
سمجھے تھے ہم شاید اقبالؒ سے کچھ بھول ہوئی
گومتے رہے ہم بھی عرصہ تک ان گردابوں میں
ہوا جب دل کو درد پھر زندگی کچھ حصول ہوئی
یہ حیلہ ¿ نفس تھا بت میں بھی ہمارے
سمجھا جب نفس کو دل کو تازگی قبول ہوئی
آگئے تھے اول رجعت میں پا کر یہ سبق
سمجھایا جو حق باھُوؒ نے کچھ عقل دخُول ہوئی
نہ خدمت سے نہ سخاوت سے ہوا کوئی تغیر
ہوا جب ذکر قلب جاری کچھ روشنی حلول ہوئی
٭٭٭٭٭٭٭
رکھا جس نے بھی صبر اس کا مقام انتہا ہوتا ہے
کہ نہیں ہے جن کا آسرا کوئی ان کا خدا ہوتا ہے
ہوا گر برباد راہ حق میں وقتِ جوانی
وہی ہے بایزیدؒ جو پُتلا وفا ہوتا ہے
مارا گر ہوس و شہوت کو رہ کے دنیا میں
وہی ہے طالع قسمت جو اک دن باخدا ہوتا ہے
کی گریہ زاری گنہگار نے کسی وقت پشیمانی
کبھی نہ کبھی وہ بھی کعبے میں سجدہ گراں ہوتا ہے
ہوا گناہ سرزد غلبہ ¿ نفس سے اگر
ہے وہ قابلِ بخشش جب آدمی فنا ہوتا ہے
مگر نہیں ہے ہرگز وہ عابد لائق جنت
جس میں غیبت بغض یا کِبر و اَنا ہوتا ہے
ہوا تھا ابلیس بھی ملعون اسی کِبر و اَنا سے
دشمن ہے وہ ناسمجھی میں بندہ اس کی رضا ہوتا ہے
ہوتی ہے اس کی ہاتھا پائی ہیں جو عالم و عابد
ڈال کر چپکے سے نفاق ان میں پھر فرارِ راہ ہوتا ہے
بڑھتا رہتا ہے نفاق بھی ساتھ ساتھ نمازوں کے
آخر بن کے کوئی غلام احمد یا غلام اللہ رونما ہوتا ہے
اک لاکھ اسّی ہزار زنّار ہیں اس کے نفس پر
ٹوٹتے نہیں وظیفوں چِلّوں سے بیشک کُبڑا ہوتا ہے
ٹوٹ سکتے نہیں زنّار یہ کامل کے علاوہ
ملی جس کو یہ نعمت وہی نورالہدیٰ ہوتا ہے
ملے کوئی خالص کود جا بیشک بحرِ فَقر میں
ورنہ شریعت سے بھی کچھ نہ کچھ دل صفا ہوتا ہے
پکڑا شریعت کو کر کے پاک قلب آلود زدہ
مل جاتا ہے در توبہ جب آدمی بانگِ درا ہوتا ہے
سکونِ قلب خواب جنت خیالِ حُوراں شریعت میں
طریقت میں آدمی قبل از موت سوئے خدا ہوتا ہے
سستا نہیں ہے مقام یہ حاصل ہو جو اس زندگی میں
ہوا جو مر کے زندہ وہی قبور شنا ہوتا ہے
یہی ہے طریقت میں پہلا قدم بزور شرع بغور اکمل
لگتے ہیں پھر بارہ سال اور تب حدود لاانتہا ہوتا ہے
رب اس سے راضی وہ رب سے ہوا نہ گر ساکن راہ
کہ مقام فقر ہے دور بہت جو نورِ خدا ہوتا ہے
اڑنا حجاب ہوا پے چلنا حجاب فرشتوں سے ملنا حجاب
ہیں یہ سب ہیچ مراتب فَقر کا رُوبرو لَقا ہوتا ہے
اس کی نَظر نظرِ خدا اس کا فرمان بھی فرمانِ خدا
خدا نہیں جدا بھی نہیں کہ وہی نائب خدا ہوتا ہے
کود کے اس بحر میں پائے یہ اِسرار ہم نے
کہ رہتا ہے جوبن میں وہ شیروں کا بھید پا ہوتا ہے
ہو جائے گر اس کی دوستی شیروں سے زور قسمت
ہر محفل میں ہر منزل میں ان کے ہمراہ ہوتا ہے
٭٭٭٭٭٭٭
جب کوئی سالک جنون عشق میں مبتلا ہوتا ہے
کر دیا جاتا ہے قتل جب عاشقِ خدا ہوتا ہے
ہو جاتی ہے اس کی جزا لازم جو خون بہا ہوتا ہے
فرماتے ہیں رب پھر میں اس کا وہ میرا دِلرُبا ہوتا ہے
٭٭٭٭٭٭٭
اب سن قصہ شیطان کا ہے جو تجھ پہ غلبہ جما
روکتا ہے اس قلم کو بھی کہ میرا پردہ نہ اٹھا
عقل میں تجھ سے اَبتر علم میں عیاری میں بھی
پل رہا ہے تیرے شکم میں جس کا جاسوس بچہ
کرتا ہے گر اس کا مقابلہ تو راہ حق میں
تجھ میں بھی ہو ِعلم کچھ نہ کچھ تو اس سا
ہو تجھ میں بھی پہچان حق و باطل کی وگرنہ
ہوگئے خاکستر اس کی ایک پھونک سے کئی سورما
کبھی تو آئے گا بن کے پیر تیرا یا فقیر کوئی
کہ تو ہے منظورِ نظر تجھے نمازوں سے کیا
کبھی کہے گا پی لے بھنگ ہے یہ شراب طہورا
دے کے عجیب و غریب چکر کرے گا تجھے گمراہ
روکے گا اس عبادت سے ہے جو تاثیرِ دل
لگ جاتی ہے آگ اس کو کرتا ہے کوئی اکسیر روا
آتی ہے پھر فوج در فوج ہنود کی بندش کے لئے
آیا نہ باز ان سے ہوتا ہے پھر بذاتِ خود رونما
کسی کو ڈالا رجوعات خلق میں ہو گئی برباد محنت
کسی کو دیا شریعت سے چھڑا دکھا کے مصنوعی خدا
دیکھا کئی طالبوں کو اس رجعت میں ہم نے
جو دیکھ کے مصنوعی نظارے بیٹھے ایمان گنوا
نہ دیکھی اوقات اپنی نہ دیکھا وہ خاکی جُسہّ
نہ سمجھی بات یہ بن گئے شباشب اولیائ
آسکتا ہے شکل میں درباروں اور ستاروں کے بھی
نہ سمجھ سکے جسے وہ کہ ہے یہ حقیقت کیا
پہلے تو پکڑ اس جاسوس کو کہتے ہیں جسے نفس
آ نہ سکے گا گرفت میں نہ کر فقیری میں عمر تباہ
ادھر تو چاہیئے علم و حلم اور دل کشادہ جانی
پھر صبر و رضا اور مرشد جو ہو راہوں سے آگاہ
تین شکلوں میں آسکتا نہیں نبی کعبہ اور قرآن کی
ہو گر ایسا نہ رہے پہچان حق و باطل کی راہ مصطفی
٭٭٭٭٭٭٭
آئی غنودگی جب عشق میں گرے زمین پر
پایا بے حس کوو ¿ں نے آئے دیدار آدم
کہا ایک نے ہے کوئی اسیر محبت
یا موالی ہے یا کوئی بیمار آدم
پیاسا ہے یا مر گیا مسافر شاید
کہا دوسرے نے ہو گا کوئی مکار آدم
بنایا ہے بہانہ اس نے طائروں کو پکڑنے کا
پاس نہ جانا اس کے کہ ہے ہوشیار آدم
کیا کہے گا ہمیں پاسباں ہیں لعل باغ کے
کرتا ہے حرام یہ ہوتا ہے جدھر نمک خوار آدم
مرتے مرتے بھی باز نہیں آتا یہ حرکتوں سے
بستے ہیں درندے کئی ہے عجب خونخوار آدم
کر رہا تھا یہ اﷲ اﷲ سویرے سویرے
کہا دوسرے نے اﷲ اﷲ ہی ہے شکار آدم
داڑھی ہے اس کے منہ پر شکل مومنانہ
آئی آواز یہی ہے ترقی رفتار آدم
تھے ہوش میں ہم سن رہے تھے بات ان کی
ہوئے حیران بہت کہ ہیں مردار بھی بیزار آدم
چاند ابھرتا ہے ہمیشہ ڈوب جانے کے بعد
آیا دل کو سکون خون جگر پلانے کے بعد
بہشت بھی ملی دل کے بجھ جانے کے بعد
پایا اک نقطہ کتنے نقطے مٹانے کے بعد
کہا مرشد نے خام ہے گھر بار چھڑانے کے بعد
آئی دل میں پختگی اپنا کفن اٹھانے کے بعد
رلتے رہے ویرانوں میں ہوش و حواس گنوانے کے بعد
کبھی شاداں کبھی نالاں عشق کی مار کھانے کے بعد
ہم عشق میں برباد وہ برباد ہمارے جانے کے بعد
ہوئی عشق کو تسلی کتنی جانیں رلانے کے بعد
آئے یاد بچے آیا صبر آنسو بہانے کے بعد
نہ رہی طاقتِ گفتار اب یہ دکھڑا سنانے کے بعد
بہتر ہیں جو بن گئے اولیاء کچھ خواب آنے کے بعد
کر دی تحریر ہم نے دین دنیا آزمانے کے بعد
ہو جائے شائد پاک دل تیرا یہ دوا کھانے کے بعد
ہے جو تریاق نوری سمجھے گا شفا پانے کے بعد
پچھتائے گا اک دن ضرور یہ تصنیف ٹھکرانے کے بعد
ہے جو منظورِ نظر و اِذنِ محمد حال پیمانے کے بعد
نہ رہے گی حاجت کسی کامل کی یقین جمانے کے بعد
کیا عمل جاری پہنچ جائیں گے بلانے کے بعد
٭٭٭٭٭٭٭
.
سمجھے تھے ہم شاید اقبالؒ سے کچھ بھول ہوئی
گومتے رہے ہم بھی عرصہ تک ان گردابوں میں
ہوا جب دل کو درد پھر زندگی کچھ حصول ہوئی
یہ حیلہ ¿ نفس تھا بت میں بھی ہمارے
سمجھا جب نفس کو دل کو تازگی قبول ہوئی
آگئے تھے اول رجعت میں پا کر یہ سبق
سمجھایا جو حق باھُوؒ نے کچھ عقل دخُول ہوئی
نہ خدمت سے نہ سخاوت سے ہوا کوئی تغیر
ہوا جب ذکر قلب جاری کچھ روشنی حلول ہوئی
٭٭٭٭٭٭٭
رکھا جس نے بھی صبر اس کا مقام انتہا ہوتا ہے
کہ نہیں ہے جن کا آسرا کوئی ان کا خدا ہوتا ہے
ہوا گر برباد راہ حق میں وقتِ جوانی
وہی ہے بایزیدؒ جو پُتلا وفا ہوتا ہے
مارا گر ہوس و شہوت کو رہ کے دنیا میں
وہی ہے طالع قسمت جو اک دن باخدا ہوتا ہے
کی گریہ زاری گنہگار نے کسی وقت پشیمانی
کبھی نہ کبھی وہ بھی کعبے میں سجدہ گراں ہوتا ہے
ہوا گناہ سرزد غلبہ ¿ نفس سے اگر
ہے وہ قابلِ بخشش جب آدمی فنا ہوتا ہے
مگر نہیں ہے ہرگز وہ عابد لائق جنت
جس میں غیبت بغض یا کِبر و اَنا ہوتا ہے
ہوا تھا ابلیس بھی ملعون اسی کِبر و اَنا سے
دشمن ہے وہ ناسمجھی میں بندہ اس کی رضا ہوتا ہے
ہوتی ہے اس کی ہاتھا پائی ہیں جو عالم و عابد
ڈال کر چپکے سے نفاق ان میں پھر فرارِ راہ ہوتا ہے
بڑھتا رہتا ہے نفاق بھی ساتھ ساتھ نمازوں کے
آخر بن کے کوئی غلام احمد یا غلام اللہ رونما ہوتا ہے
اک لاکھ اسّی ہزار زنّار ہیں اس کے نفس پر
ٹوٹتے نہیں وظیفوں چِلّوں سے بیشک کُبڑا ہوتا ہے
ٹوٹ سکتے نہیں زنّار یہ کامل کے علاوہ
ملی جس کو یہ نعمت وہی نورالہدیٰ ہوتا ہے
ملے کوئی خالص کود جا بیشک بحرِ فَقر میں
ورنہ شریعت سے بھی کچھ نہ کچھ دل صفا ہوتا ہے
پکڑا شریعت کو کر کے پاک قلب آلود زدہ
مل جاتا ہے در توبہ جب آدمی بانگِ درا ہوتا ہے
سکونِ قلب خواب جنت خیالِ حُوراں شریعت میں
طریقت میں آدمی قبل از موت سوئے خدا ہوتا ہے
سستا نہیں ہے مقام یہ حاصل ہو جو اس زندگی میں
ہوا جو مر کے زندہ وہی قبور شنا ہوتا ہے
یہی ہے طریقت میں پہلا قدم بزور شرع بغور اکمل
لگتے ہیں پھر بارہ سال اور تب حدود لاانتہا ہوتا ہے
رب اس سے راضی وہ رب سے ہوا نہ گر ساکن راہ
کہ مقام فقر ہے دور بہت جو نورِ خدا ہوتا ہے
اڑنا حجاب ہوا پے چلنا حجاب فرشتوں سے ملنا حجاب
ہیں یہ سب ہیچ مراتب فَقر کا رُوبرو لَقا ہوتا ہے
اس کی نَظر نظرِ خدا اس کا فرمان بھی فرمانِ خدا
خدا نہیں جدا بھی نہیں کہ وہی نائب خدا ہوتا ہے
کود کے اس بحر میں پائے یہ اِسرار ہم نے
کہ رہتا ہے جوبن میں وہ شیروں کا بھید پا ہوتا ہے
ہو جائے گر اس کی دوستی شیروں سے زور قسمت
ہر محفل میں ہر منزل میں ان کے ہمراہ ہوتا ہے
٭٭٭٭٭٭٭
جب کوئی سالک جنون عشق میں مبتلا ہوتا ہے
کر دیا جاتا ہے قتل جب عاشقِ خدا ہوتا ہے
ہو جاتی ہے اس کی جزا لازم جو خون بہا ہوتا ہے
فرماتے ہیں رب پھر میں اس کا وہ میرا دِلرُبا ہوتا ہے
٭٭٭٭٭٭٭
اب سن قصہ شیطان کا ہے جو تجھ پہ غلبہ جما
روکتا ہے اس قلم کو بھی کہ میرا پردہ نہ اٹھا
عقل میں تجھ سے اَبتر علم میں عیاری میں بھی
پل رہا ہے تیرے شکم میں جس کا جاسوس بچہ
کرتا ہے گر اس کا مقابلہ تو راہ حق میں
تجھ میں بھی ہو ِعلم کچھ نہ کچھ تو اس سا
ہو تجھ میں بھی پہچان حق و باطل کی وگرنہ
ہوگئے خاکستر اس کی ایک پھونک سے کئی سورما
کبھی تو آئے گا بن کے پیر تیرا یا فقیر کوئی
کہ تو ہے منظورِ نظر تجھے نمازوں سے کیا
کبھی کہے گا پی لے بھنگ ہے یہ شراب طہورا
دے کے عجیب و غریب چکر کرے گا تجھے گمراہ
روکے گا اس عبادت سے ہے جو تاثیرِ دل
لگ جاتی ہے آگ اس کو کرتا ہے کوئی اکسیر روا
آتی ہے پھر فوج در فوج ہنود کی بندش کے لئے
آیا نہ باز ان سے ہوتا ہے پھر بذاتِ خود رونما
کسی کو ڈالا رجوعات خلق میں ہو گئی برباد محنت
کسی کو دیا شریعت سے چھڑا دکھا کے مصنوعی خدا
دیکھا کئی طالبوں کو اس رجعت میں ہم نے
جو دیکھ کے مصنوعی نظارے بیٹھے ایمان گنوا
نہ دیکھی اوقات اپنی نہ دیکھا وہ خاکی جُسہّ
نہ سمجھی بات یہ بن گئے شباشب اولیائ
آسکتا ہے شکل میں درباروں اور ستاروں کے بھی
نہ سمجھ سکے جسے وہ کہ ہے یہ حقیقت کیا
پہلے تو پکڑ اس جاسوس کو کہتے ہیں جسے نفس
آ نہ سکے گا گرفت میں نہ کر فقیری میں عمر تباہ
ادھر تو چاہیئے علم و حلم اور دل کشادہ جانی
پھر صبر و رضا اور مرشد جو ہو راہوں سے آگاہ
تین شکلوں میں آسکتا نہیں نبی کعبہ اور قرآن کی
ہو گر ایسا نہ رہے پہچان حق و باطل کی راہ مصطفی
٭٭٭٭٭٭٭
آئی غنودگی جب عشق میں گرے زمین پر
پایا بے حس کوو ¿ں نے آئے دیدار آدم
کہا ایک نے ہے کوئی اسیر محبت
یا موالی ہے یا کوئی بیمار آدم
پیاسا ہے یا مر گیا مسافر شاید
کہا دوسرے نے ہو گا کوئی مکار آدم
بنایا ہے بہانہ اس نے طائروں کو پکڑنے کا
پاس نہ جانا اس کے کہ ہے ہوشیار آدم
کیا کہے گا ہمیں پاسباں ہیں لعل باغ کے
کرتا ہے حرام یہ ہوتا ہے جدھر نمک خوار آدم
مرتے مرتے بھی باز نہیں آتا یہ حرکتوں سے
بستے ہیں درندے کئی ہے عجب خونخوار آدم
کر رہا تھا یہ اﷲ اﷲ سویرے سویرے
کہا دوسرے نے اﷲ اﷲ ہی ہے شکار آدم
داڑھی ہے اس کے منہ پر شکل مومنانہ
آئی آواز یہی ہے ترقی رفتار آدم
تھے ہوش میں ہم سن رہے تھے بات ان کی
ہوئے حیران بہت کہ ہیں مردار بھی بیزار آدم
چاند ابھرتا ہے ہمیشہ ڈوب جانے کے بعد
آیا دل کو سکون خون جگر پلانے کے بعد
بہشت بھی ملی دل کے بجھ جانے کے بعد
پایا اک نقطہ کتنے نقطے مٹانے کے بعد
کہا مرشد نے خام ہے گھر بار چھڑانے کے بعد
آئی دل میں پختگی اپنا کفن اٹھانے کے بعد
رلتے رہے ویرانوں میں ہوش و حواس گنوانے کے بعد
کبھی شاداں کبھی نالاں عشق کی مار کھانے کے بعد
ہم عشق میں برباد وہ برباد ہمارے جانے کے بعد
ہوئی عشق کو تسلی کتنی جانیں رلانے کے بعد
آئے یاد بچے آیا صبر آنسو بہانے کے بعد
نہ رہی طاقتِ گفتار اب یہ دکھڑا سنانے کے بعد
بہتر ہیں جو بن گئے اولیاء کچھ خواب آنے کے بعد
کر دی تحریر ہم نے دین دنیا آزمانے کے بعد
ہو جائے شائد پاک دل تیرا یہ دوا کھانے کے بعد
ہے جو تریاق نوری سمجھے گا شفا پانے کے بعد
پچھتائے گا اک دن ضرور یہ تصنیف ٹھکرانے کے بعد
ہے جو منظورِ نظر و اِذنِ محمد حال پیمانے کے بعد
نہ رہے گی حاجت کسی کامل کی یقین جمانے کے بعد
کیا عمل جاری پہنچ جائیں گے بلانے کے بعد
٭٭٭٭٭٭٭
.
دعائے گوھر شاھی مدّظلّہ العالی
اے ٹو ٹے دلوں کو جوڑنے والے !
اس امت کے دلوں کوجوڑد ے
اے کا تب تقد یر!
ان کے سینوں کو بھی چمکا دے
ان کا سینہ بھی مدینہ بنا دے
.
یا الٰہی!
ان کے د ل میں ا پنا
اور ا پنے حبیب کا عشق پید ا کر
ا یسا عشق جس کی تڑپ سے
یہ د ل ریزہ ریزہ ہوجا ئیں
No comments:
Post a Comment