Thursday, March 5, 2009

PAGE 6

.
رسالہ روحی شریف کا یہ فائدہ دیکھا کہ مصیبت کے وقت ہفت سلطانوں کی ارواح مدد کو پہنچتیں۔ دوسرا فائدہ یہ دیکھا کہ اگر کوئی آسیب دم وغیرہ سے نہ بھاگتا اگر اس پر رسالہ روحی پڑھا جاتا تو ضرورہی ہٹ جاتا ۔ تیسر ا فائدہ رسالہ روحی کے پڑھنے والوں کو رجعت کا خطرہ نہیں ہے ۔ ایک رات لیٹا ہوا تھا ان چناؤ والے تیرہ آدمیوں میں سے ایک آدمی میرے سامنے آگیا ۔ اس نے مجھ سے ہاتھ ملایا ایسا لگا کہ میرے اندر سے کوئی چیز کھینچ رہا ہے ۔ میں نے چھوڑانے کی کوشش کی لیکن اپنے آپ کو بے بس پایا اتنے میں ایک تلوار اس کے ہاتھ کی طرف بڑھی اور اس نے فوراً ہاتھ ہٹالیا اور کمرے سے نکل گیا۔ یہ تلوار دُعائے سیفی کا عمل تھا جو میری مدد کو پہنچا۔ میں نے ان تینوں عملوں پر کئی بار مختلف طریقوں سے تجربہ کیا جو کامیاب ہوا اور پھر ان تین عملوں کی اجازت اپنے ذاکروں کودی تاکہ وہ بھی اس سے مستفید ہو سکیں۔

لطیف آباد میں رہتے ہوئے تین سال ہو گئے ۔ ایک دفعہ بیوی نے کچھ زیادہ ہی ستایا اور میں نے پھر جنگل کی راہ لی ۔ لال باغ پہنچا تو دیکھا کہ باغ کے باہر بہت بڑی دیوار بن گئی ہے ۔ سامنے بڑا گیٹ ہے۔ جو مقفّل ہے۔ میں کوشش کے باوجود باغ میں داخل نہ ہو سکا ۔واپس ہوا اور سڑک والے ہوٹل کے ملازمین سے پوچھا کہ یہ دیوار کب سے بنی ہے ۔ انہوں نے کہا کوئی دیوار وغیرہ نہیں ہے ۔ ایک نے کہا میں ابھی ابھی باغ سے ہو کر آیا ہوں ۔ میں سمجھ گیا داخلے کی اجازت نہیں ہے ہوٹل والے واقف تھے انہوں نے ہوٹل میں ہی بسترا لگا دیا اور میں سو گیا خواب میں دیکھا ہر قسم کے کھانے اور ہر قسم کے پھل ایک جگہ ڈھیرلگے ہوئے ہیں کوئی صدادے رہا ہے۔

تیرا جنگل کا چلہ شہر داری میں تبدیل کر دیا گیا ہے اور یہ نعمتیں تیرے نصیبے میں لکھی جا چکی ہیں اب تیرا عروج عبادت سے نہیں بلکہ خدمت خلق سے ہے اب دنیا میں رہ کر اسم ذات کو پھیلانا ہے ۔ بیوی سے گزارکر کہ یہ بھی صبر کا اعلٰی مقام ہے اگر تاب نہیں تو بیشک طلاق دے ۔ اس دن کے بعد میری بیوی کے مزاج میں تبدیلی ہو گئی اور اس قسم کے پھل اور کھانے لوگ پکا پکاکر کھلانے میں مصروف ہو گئے اور آج تک یہی سلسلہ جاری ہے۔

آج لطیف آباد میں پھر مستانی کا خیال آیا ، اور چاہا کہ اس کو اپنے پاس رکھ لوں تاکہ اسے بھی راہ ِ راست مل جائے ۔ پھر خیال ہوا ۔ ایسا نہ ہو میری بیوی کو بھی موالن بنادے اور خیال ترک کر دیا لیکن تھوڑے دنوں کے بعد پھر اس کی یاد ستائی کہ اس نے بھی کچھ دن خدمت کی ہے اسے بھی کچھ نہ کچھ صلہ ملنا چاہیے سہون شریف ، بھٹ شاہ ؒ ، جئے شاہ نورانی ؒسب جگہ اس کا پتہ کیا مگر اس کا کہیں بھی سراغ نہ ملا کیونکہ میں حلیہ سے اس کا پتہ کرتا کچھ اسے مستانی اور کچھ لاہوتن کے نام سے پکارتے تھے ۔

ایک دن لال باغ سے سہون کو جا رہا تھا خلیفہ کے گھر کے سامنے چبوترے پر ایک چھوٹا سا مزار ہے۔ جب وہا ں سے گزرا تو صاحب مزار نظر آئے اور اپنی طرف بلایا۔ میں ان کی قبر کے پاس پہنچا اور فاتحہ پڑھی ۔سامنے ایک شخص جھاڑو دے رہا تھا اور ساتھ ہی ساتھ چرس کے کش لگا رہا تھا اب وہ میرے بالکل قریب آگیا اور میں دھوئیں میں گھر گیا ۔ صاحب مزار سے پوچھا ایسے لوگوں کو بھگاتے کیوں نہیں ۔ کہنے لگے یہ موالی اور فاسق لوگ ہیں۔ ہم خود ان سے بیزار ہیں لیکن یہ صرف اس وجہ سے برداشت کئے ہوئے ہیں کہ اگر ہم نے انہیں دھتکار دیا تو یہ لوگ شہروں میں جا بسیں گے اور مخلوق خدا کو نقصان پہنچائیں گے اب میں ان کا راز لینے کے لئے ان کے قریب ہو گیا جہاں دو چار ملنگ بیٹھے نظر آتے بیٹھ جاتا وہ مجھے بھی اپنا ہی سمجھتے اور نشے میں ایک دوسرے پر اپنی بڑائی جتاتے معلوم ہوا کہ کوئی مفرور چور کوئی مفرور ڈاکو اور زیادہ تر سابقہ طوائفوں کے دلا ل تھے ۔

ایک دفعہ ذکر سے مستی کا عالم بڑھا اور پھر وہ سکر و جذب میں تبدیل ہونا شروع ہوگیا ۔ ہر وقت اللہ ھُو کے ذکر اور تصور میں ڈوبا رہتا سخت دھوپ میں پہاڑوں پر اِدھر اُدھر دوڑتا رہتا۔ نمازوں میں کوتاہی ہونا شروع ہو گئی داڑھی مونچھ سر اور بغلوں کے بال وغیرہ بہت بڑھ گئے ۔ حتٰی کہ وہ روز کا نہانا بھی جاتا رہا۔ جسم سے بدبو محسوس ہونے لگی ۔ بغیر وضو کے منہ دھونا بھی مصیبت بن گیا۔ وضو بھی دن میں ایک ہی دفعہ ہوتامنہ اور داڑھی پر خاک جمی رہتی اسی حالت میں چشموں پہ بیٹھا خلا ءکوگھور رہا تھا کہ چند بزرگ تشریف لائے میں تعظیماً اٹھا ایک بزرگ نے بتایا کہ یہ پیران پیر ہیں اور میں ان کے قدموں میں لپٹ گیا انہوں نے شفقت سے کمر پر ہاتھ پھیرا اور کہا اس وقت جنّات اور تجھ میں کچھ فرق نہیں کیا تو نے نہیں سناکہ صفائی نصف ایمان ہے۔ اب تیرا جسم مکروہ ہو چکا ہے یاد رکھ

ناپاک جسم سے نماز پڑھنا گناہ ہے مکروہ جسم سے نماز پڑھنا تباہی ہے

صاف ستھرے جسم سے نماز پڑھنا نصف ایمان ہے اور جب باطن صاف ہو جائے تو نماز پڑھنا پورا ایمان ہے یعنی وہ حقیقت نماز مل جاتی ہے جو مومن کی معراج ہے اب درود شریف کثرت سے پڑھ ۔ اس وقت تک پڑھ جب تک حالتِ جذب ختم نہ ہو اور پھر میں نے درود شریف کے وسیلے سے سکر پے آغاز سے ہی قابو پا لیا ۔

ایک دفعہ جئے شاہ نورانی ؒجانے کا اتفاق ہوا لاہوت کی پہاڑیوں میں ایک غار ہے جہاں پتھر کی اونٹنی کے نشان بنے ہوئے ہیں غار کے ارد گرد میلوں تک کوئی آبادی نہیں ہے بڑی بڑی خوف ناک پہاڑیاں ہیں جہاں شیر اور چیتے گھومتے دیکھے گئے ۔ ایک جواں سال شخص غار کے پاس تنہائی میں رہتا ہے اس نے غا ر کا راستہ دکھایا اور مغرب کا کھانا بھی کھلایا یعنی تقریباً ڈیڑھ انچ موٹی روٹی کے ٹکڑے پیش کئے ۔ مغرب اور عشاءکی نماز ساتھ پڑھی ۔
.
میں سوچ رہا تھا کہ یہ بھی کوئی تارک ِدنیا ہے۔ اتنے میں اس نے سگریٹ سلگایا اور چرس کی بو اطراف میں پھیل گئی اور مجھے اس سے نفرت ہونے لگی رات کو الہامی صورت پیدا ہوئی۔ یہ شخص ان ہزاروں عابدوں ، زاہدوں ، اور عالموں سے بہتر ہے جو ہر نشے سے پرہیز کر کے عبادت میں ہوشیار ہیں لیکن بخل ، حسد اور تکبر ان کا شعار ہے۔ یہ شخص جس سے تو نے نفرت کری ۔ اللہ کے دوستوںسے ہے عشق اس کا شعار ہے اور یہ نشہ اس کی عادت ہے جبکہ عشق بدعت کو جلاتا ہے، نظرِ رحمت گناہوں کوجلاتی ہے اور تکبر و بخل عبادت کو جلاتا ہے۔بس پھر یہی سمجھا کہ خدا ہے عقل و فہم سے دور سمجھ جائے جس کو بندہ وہ خدا کیا

ایک دن میں نے اپنی آپ بیتی کا بغو ر مطالعہ کیا اور پھر شریعت کی رو سے دیکھا ۔ ایک واقع ہے کہ غوث پاک ؓ کے زمانے میں ایک شخص بہت عبادت کرتا لوگ آپ ؓ سے پوچھتے کہ اسے کچھ مل گیا ہو گا ۔ آپ ؓ فرماتے کچھ بھی نہیں ۔ آخر ایک شخص کو تشویش ہوئی اور اس نے چوری چھپے اس عابد کی نگرانی شروع کردی وہ عابد اپنی جگہ سے اٹھا ایک جھاڑی کے پیچھے گیا۔ جہاں افیون رکھی ہوئی تھی اس نے اس میں سے کچھ کھائی یعنی نشہ کیا اس شخص نے سارا واقعہ غوث پاکؓ کو سنایا آپ نے فرمایا کہ نشہ کرنے والے کی عبادت قبول نہیں ہوتی ۔

دوسرا واقعہ اس کے برعکس ہے کہ حضور پاک ﷺ کے زمانے میں ایک مسلمان شراب نوشی کے الزام میں پکڑا گیا ۔ کوڑے لگائے گئے دوبارہ پھر اسی الزام میں کوڑے لگائے گئے ۔ سہ بار جب اسی جرم میں لایا گیا تو صحابہ ؓ نے کہا کہ اس آدمی پر لعنت ہو ۔جو بار بار اسی جرم میں آتا ہے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا اس پر لعنت مت کرو کیونکہ یہ اللہ اور اس کے حبیب ﷺ سے محبت رکھتا ہے اور محبت رکھنے والا کبھی دوزخ میں نہیں جائے گا پہلا شخص بھی نشہ باز تھا جس کی عبادت رائیگاں گئی ۔ دوسرا شخص بھی نشہ باز تھا جو جنت کا حقدار ہوا ۔ پہلے شخص میں ابھی محبت پیدا نہیں ہوئی تھی لیکن دوسرے شخص کے دل میں محبت تھی کیونکہ وہ دیدارِ رسول ﷺ میں تھا معلوم ہوا اگر کوئی محبت و عشق کی منزل پا لے تو اس کی بدعتوں کا کفارہ ہوتا رہتا ہے اور یہ منزل بغیر نظر اور قلب کے حاصل نہیں ہوتی ۔

بہت سے اولیاءبھی مرتبہ کے بعد خلاف ِ شرع کاموں کا شکار ہوئے جیسے مظفر آباد میں سہیلی سرکار ؒ ۔ نہ نماز پڑھتے ، نہ داڑھی رکھتے وفات کے بعد مولویوں نے کہا کہ یہ بے دین تھا اس وجہ سے ہم اس کا جنازہ نہیں پڑھائیں گے لیکن جب منہ سے کپڑااٹھایا تو ریش موجود تھی مری میں لال شاہ ؒ ننگے بیٹھے رہتے ۔ نسوار کانشہ کرتے رہتے اور نماز بھی نہ پڑھتے ۔ لیکن جو کلام منہ سے نکالتے پورا ہو جاتا ۔ سداسہاگن بھی عورتوں جیسا سرخ لباس اور چوڑیاں پہنتے ۔ سخی سلطان باھُو ؒ فرماتے ہیں کہ جب کوئی جسم عشق الٰہی سے نور ہو جاتا ہے ، اگر حرام کا لقمہ بھی کھا لے تو نور کی گرمی اس نجاست کو حلال بنا دیتی ہے ۔

کچھ لوگ کہتے ہیں کہ نبی ﷺ نے تو ایسے نہیں کیا نبی حالت صحو میں رہتے ہیں کیونکہ ان سے دین کی تکمیل ہوتی ہے ۔ ولی سکر اور جذب میں بھی آتے ہیں اگر ان میں کوئی خلاف ِ شریعت بات پیدا ہو جائے تو دین کا نہ کچھ بدلتا ہے اور نہ کچھ بگڑتا ہے لیکن نبی ﷺ میں کوئی خلاف ِ شرع بات پیدا ہو جاتی تو وہ سنت بن جاتی اور دین میں خرابی کا باعث بنتی۔ امیر کلال ؒ بچپن سے ہی کبڈی کھیلا کرتے تھے ولایت کے بعد بھی آپ کبڈی کا شوق فرماتے لیکن ان کے وصال کے ان کے خلیفوں نے ایسا نہیں کیا ۔ اگر حضور پاکﷺ کبڈی کھیلتے ۔ آج امت اس کو بھی سنت بنالیتی یہی وجہ ہے کہ نبوت سکرو جذب اور گناہ وبدعت سے مبرّا اور معصوم ہے لیکن ولایت مبرّا نہیں۔ اگر کو ئی ولی ظاہرو باطن میں مقام بکمالیت تک پہنچ جائے تو وہ بھی مبرّا ہو جاتا ہے اور اسی کے لئے حدیث ہے ۔

” میرے عالم بنی اسرائےل کے نبیوں کی مانند ہوں گے “
.

No comments:

Post a Comment