Thursday, March 5, 2009

PAGE 5

.
میں ساری رات چلہ گاہ میں ذکر و فکر میں گزارتا اور ایک کپ قہوے کے لالچ میں مستانی کی جھونپڑی میں چلا آتا ۔ایک دن میں نے محسوس کیا کہ قہوہ کاذائقہ بدلا ہوا ہے مستانی سے پوچھا کیا وجہ ہے کہنے لگی چائے کی پتی صحیح نہیں ہے ۔دوسرے گھونٹ پر عجیب سی بو محسوس ہوئی اور میں نے قہوہ چھوڑ دیا۔کیونکہ مجھے معلوم ہو چکا تھا کہ قہوہ سے بھنگ کی بو آرہی ہے ۔اس بوکو میں کئی دفعہ مستانی کی جھونپڑی میں محسوس کر چکا تھا اور اب قہوہ بھی پینا پلانا بند ہو گیا ۔دوسرے تیسرے دن جھونپڑی میں جاتا اگر میرے سامنے قہوہ بنتا تو پی لیتا۔مجھے اور مستانی کو ایک جگہ رہتے تین سال سے زائد عرصہ ہو چکا تھا۔ ہم دونوں ایک دوسرے سے مانوس ہو گئے تھے اور ایک دوسرے کی غلطیوں کونظر انداز کر دیتے تھے۔اگر میں جھونپڑی میں نہ جاتا تو زبردستی ساتھ لے جاتی اور کھانے کی چیز مجھے دیتی اور میں بڑی احتیاط اوردیکھ بھال سے کھا لیتا۔ گونگے کے واقعہ کے بعد گردونواح کے لوگ کافی تعداد میں میرے پاس آنا شروع ہو گئے کسی کو پانی دم کرکے دیتا کسی کو آیت الکرسی لکھ دیتا اب میں نے سوچا کہ رجوعات خلق میں پھنس گیا۔ بہتر ہے کہ خلق سے نکلوں اور ایسی جگہ جاﺅں جہاں کوئی بھی نہ ہو۔ صرف پانی ہو اور کچھ درخت ہوں جن کے پتوں سے پیٹ کو بہلا سکوں اور میں نے بلوچستان میں شاہ نورانی ؒکے مزار پر جانے کا ارادہ کر لیا ۔مستانی کو اپنے پروگرام سے آگاہ کیا ۔دوسرے دن مستانی نے کہا مجھے بھی حکم ہوا ہے کہ بھٹ شاہ چلی جا ۔مستانی نے گلے میں تسبیحاں لٹکائیں۔ ہاتھوں میں کشکول لیا کاندھوں پر ریلی اور کمر میں گودڑی سجائی اور پیدل سفر کو تیار ہو گئی جاتے وقت مجھے مصافہ کیا پھر گلے سے لگایا رو رو کر کہنے لگی ہم لوگ بد نصیب ہیں ۔ہم بھی امت رسول ہیں لیکن شیطان کے قبضہ میں ہیں اور شیطان کی طرف سے تم جیسے لوگوں کو بہکانے کے لئے ہماری ڈیوٹیاں لگتی ہیں۔ مجھے کشف بھی شیطان ہی کی طرف سے ہے اور میں تمہارے جیسے کئی طالبوں کو مختلف طریقوں سے گمراہ کر چکی ہوں ۔ تم پہلے شخص ہو جو میرے مکر سے بچ گئے ۔میرے لئے دعا کرنا کہ اﷲ تعالیٰ نیک راہ پر چلنے کی توفیق دے کیونکہ عنقریب تمہاری ڈیوٹی دنیا میں لگنے والی ہے ۔ بس اس ٹوٹی پھوٹی اور تجربہ کار محرم کی ایک نصیحت یاد رکھنا ،عورت خواہ بیوی ہی ہو اس کو راز مت دینا۔ مولوی خواہ بیٹا ہی ہو اس سے ہوشیار رہنا اور پولیس والا خواہ گہرا دوست ہی ہو اس پر اعتبار مت کرنا اور کبھی کبھی خاص حالتوں میں ہمیں بھی یاد رکھنا۔ میں نے پوچھا تیرا گھر بار،ماں باپ یا رشتہ دار کہاں رہتے ہیں ۔کہنے لگی مجھے خبر نہیں ۔اتنا یاد ہے کہ لاہور شہر میں اپنے خاندان کے ساتھ کسی جگہ رہتی تھی ۔ماں کا پیار بھی تھوڑا تھوڑا یاد ہے چھوٹی ہی عمر میں کوئی شخص مجھے اٹھا کر لے آیا اور شکار پور میں ایک طوائف کے ہاتھوں فروخت کر دیا ۔اس طوائف نے مجھے ماں کا پیار دیا اور مکمل نگرانی میں رکھا ۔اس نے مجھے شراب بھنگ چرس سکھائی اور جب ذرا میں جوان ہوئی تو میں بھی طوائف بن گئی ۔جوانی انہیں گناہوں میں گزاری ۔صدر ایوب نے کوٹھے بند کر دیئے چونکہ میں عمر رسیدہ بھی ہو گئی تھی کوئی پُرسانِ حال بھی نہ رہا گزارہ کے لئے بھیک مانگنا شروع کر دی لیکن وہ نشے جو منہ لگ چکے تھے میسر نہ آئے درباروں میں ان نشوں کی کھلی چھٹی ہے ۔ محکمہ پولیس بھی فقیر سمجھ کر پوچھ گچھ نہیں کرتی۔ بس پھرفقر کا لباس پہنا ۔تسبیحاں گلے میں لٹکائیں کشکول ہاتھوں میں لیا اور یاعلیؑ کے نعرے مارنے شروع کر دیئے۔ شاہ لطیفؒ کے دربار پر جھاڑو دینا شروع کر دیا ،میرے پیشے کے کئی اور عورتیں مرد بھی وہاں موجود تھے جو کچھ زائرین سے نذرانہ ملتا کافیوں میں جاتے اور خوب آزادی سے بھنگ چرس پیتے ۔ ایک دن بزرگ خواب میں آئے۔پھروہ حالت بیداری میں ملنا شروع ہو گئے جس کے متعلق وہ بات کہتے پوری ہو جاتی ۔ کبھی کبھی مجھے روپے پیسے کی امداد بھی کرتے اور ان ہی کے حکم کے مطابق میں لال باغ میں تمہیں بہکانے آئی تھی اتنا سمجھتی ہوں کہ وہ بزرگ نہیں ہیں بلکہ بزرگوں کے مخالف کوئی جنس ہے ۔میں نے کہا اس سے چھٹکارا کیوں نہیں حاصل کرلیتی اس نے کہا میں نے اس کا مال کھایا ہے ۔باطن میں میری شادی اسی سے ہو چکی ہے ۔مستانی خدا حافظ کہہ کر چلی گئی اور میں بھی ایک ہفتہ بعد سہون سے حیدرآباد اور پھر کراچی کے لئے روانہ ہوا ۔ شاہ نورانی کی بس کا پتہ کیا ۔معلوم ہوا دودن کے بعد جائے گی ۔ اسی اثنا میں روحانی حکم ہوا کہ حیدرآباد واپس چلے جاؤ اور خلق خدا کو فیض پہنچاؤ میں نے کہا اگر دنیا میں واپس کرنا ہے تو راولپنڈی بھیج دو ۔ وہاں بھی خلق خدا ہے اور جب دنیا میں رہنا ہے تو پھر بال بچوں سے دوری کیا ۔ حکم ہوا بال بچے یہیں منگوالینا۔ جواب میں کہا ان کی معاش کے لئے نوکری کرنی پڑے گی۔ جب کہ میں دنیاوی دھندوں سے الگ تھلگ رہنا چاہتا ہوں۔ جواب آیا جو اﷲ کے دین کی خدمت کرتے ہیں اﷲ ان کی مدد کرتا ہے اور اﷲ انہیں وہاں سے رزق پہنچاتا ہے جس کا انہیں گمان بھی نہیں ہوتا۔

جام شورو میں ٹیکسٹ بک بورڈ کے عقب میں جھونپڑی ڈال کر بیٹھ گئے اور ذکر قلبی اور آسیب وغیرہ کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ وہ لوگ جو سہون سے واقفیت رکھتے تھے آنا جانا شروع ہوگئے اور میری ضروریات کا وسیلہ بن گئے ۔ اب یہاں بھی لوگو ں کا تانتا بندھا رہتا سیکورٹی پولیس پیچھے لگ گئی اور چھپ چھپ کرحرکات کا جائزہ لیتی حتیٰ کہ ایک کیمرہ بھی قریبی درخت پر فٹ ہو گیا ۔یونیورسٹی اور میڈیکل کے طلبا آتے ۔ ذکروفکر کی باتیں سنتے ۔ ان کو بھی ذکر کا شوق پیدا ہوا پرنسپل کو پتہ چلا جو دوسرے عقائد کا تھا ان کو سختی سے منع کیا لیکن وہ باز نہ آئے اور ایک دن پرنسپل نے چوکیداروں کو حکم دیا یا جھونپڑی اکھاڑدو یااستعفٰی دے دو۔ صبح کے وقت کچھ چوکیدارمیرے پاس آئے اورکہا ہمیں جھونپڑی اکھاڑنے کا حکم ملا ہے ۔ہم نے کوئی مداخلت نہ کری اور جھونپڑی اکھاڑ کرسامان دور پھینک دیا ۔

اب حیدرآباد سرے گھاٹ میں رہنے لگا۔ یہاں بھی لوگ آنا شروع ہو گئے ۔لوگ بڑی عقیدت سے ملتے ۔ سوچا کیوں نہ اس سے دین کا کام لیا جائے ۔سب سے پہلے عمر رسیدہ بزرگوں سے ذکر قلب کی باتیں کریں۔ انہوں نے تسلیم کیا اور خوب تعریف بھی کری لیکن عمل کے لئے کوئی بھی تیار نہ ہوا۔ پھر سوچا علمائے دین سے مدد لی جائے کئی عالموں سے ملا۔ یہ لوگ ظاہرہی کو سب کچھ سمجھتے تھے۔ ان کے نزدیک ولایت بھی علم ظاہر ہی میں تھی بلکہ اکثر عالم عامل قسم کے مولوی پیر فقیر بنے بیٹھے تھے ۔بہت کم عالموں نے علم باطن پر صرف گردن ہلائی اکثرمخالفت پر اترآئے ۔پھر ان عابدوں زاہدوں سے بیزارہو کرنوجوانوں کی طرف رخ کیا چونکہ ان کے قلب ابھی محفوظ تھے دلوں نے دل کی بات تسلیم کی اور انہوں نے عملا ً لبیک کہا اور پھر وہ نسخہ روحانیت بازاروں میں بکنا شروع ہو گیا پھر وہ نکتہ اسم ذات گلیوں محلوں اور مسجدوں میں گونجا پھر لوگوں کے قلبوں میں گونجا ۔جب اس کے خریدار زیادہ ہوگئے تو نظام سنبھالنے کے لئے انجمن سرفروشان اسلام پاکستان کی بنیاد رکھی گئی اور پھر اس انجمن نے تھوڑے ہی عرصہ میں ہزاروں قلبوں کولرزا،ہزاروں کو گرما اور ہزاروں کو چمکادیا۔

اﷲ تعالیٰ اس انجمن کو مزید ترقی دے اور اس کے کارکنوں کو اس کا دگناصلہ دے۔ آمین

لطیف آباد میں ایک دن ایک مریض کو لایا گیا جس کو دورے پڑتے تھے اور جس کے متعلق مشہور تھا کہ غوث پاک کی روح مبارک اس کے جسم میں داخل ہوتی ہے لوگ اس سے کافی عقیدت رکھتے ہیں جب میں نے آیت الکرسی پڑھ کر پھونکی تو اس کا چہرہ سرخ اورآنکھیں بڑی بڑی ہو گئیں ۔کہنے لگا پہچانو میں کون ہوں۔ میں نے کہا خود ہی بتا دو۔کہنے لگا میں غوث پاک ہوں ۔کشف کے ذریعہ پتہ چلا کہ یہ ایک شیطان جن ہے جو غوث پاک بن کر سادہ لوح مسلمانوں کو دھوکہ دیتا رہتا ہے ۔اس قسم کے کئی مریض آئے ۔جن میں بہتات عورتوں کی تھی ۔لطیف آباد نمبر 11سے ایک بیس بائیس سالہ نوجوان لایا گیا،اس کی زبان میں یہی الفاظ تھے کہ میں محمد رسول اﷲ ہوں ۔گناہ گارو آؤ اپنے گناہ بخشوالو۔ وہ لڑکا کسی وظیفہ سے رجعت میں آگیا تھا ۔ایسے واقعات تو بہت ہیں لیکن ان کے بتانے کا مقصد یہی ہے کہ ہزاروں لوگ اس قسم کے دھوکوں میں مبتلا ہیں۔ ان دھوکوں سے بچنے کا واحد ذریعہ ذکر اسم ذات ہے ۔

یونیورسٹی سے ایک مریضہ کو لایا گیا ۔بیماری کی وجہ سے زندگی سے بیزار ہو چکی تھی ہر قسم کے علاج سے کوئی افاقہ نہ ہو رہا تھا کشف کے ذریعہ پتہ چلا کہ جنات نے اس کو مریضہ بنا رکھا ہے اس کے باورچی کھانے میں ایک اُلو ّ بیٹھا نظر آیا ہم نے اُلوّ کو پکڑا اور ختم کر دیا ۔شام کوبے شمار جنات حملہ آور ہو ئے اور اُلوّ کی واپسی کا مطالبہ کرنے لگے ۔ہمارے ساتھ بھی کافی سارے جنات اور موکلات تھے ۔مقابلہ شروع ہو گیا۔کچھ ہمارا نقصان اور کچھ ان کا نقصان ہوا۔ وہ جاتے وقت کہہ گئے ہم پھر آئیں گئے ۔صبح لاکھوں کی تعداد میں جنات بدارواح اور خبیث قسم کی چیزیں حملہ آور ہوئیں ۔خوب مقابلہ ہوا دونوں طرف سے بھاری نقصان ہوا اور پھر وہ شام چھ بجے حملہ کرنے کو کہہ گئے۔ شام کو ان کے ساتھ ایک بھاری فوج تھی پتہ چلا کہ یہ فوج ابلیس ہے ۔اب بڑے زورو شور سے مقابلہ ہوا۔ دیکھا آسمان پر عجیب قسم کے جہاز ہماری فوج پر بمباری کر رہے تھے ہماری فوج بھی مورچوں سے ان پر بمباری کر رہی تھی۔ میں نے سوچا کہ جنات کے پاس جہاز کہاں سے آگئے اور یہ آنا ً فانا ً مورچے کیسے کھد گئے اور یہ مشین گنیں وغیرہ کہاں سے آگئیں۔ سمجھا شاید اسی دوران ہندوستان پاکستان کی یا عالمی جنگ چھڑگئی ہے پھر سمجھا کہ شاید نظر کو دھوکہ ہو گیا ہے ۔اتنے میں ایک گولہ میری ٹانگ پر لگازخم وغیرہ تو نہ ہوا البتہ ٹانگ میں شدید درد شروع ہوگیا۔ اب وہ گولے موکلات کی مخلوق پر لگتے وہ زخمی ہو جاتے۔ زخمیوں کو کچھ موکلات اٹھا کر برزخ کی طرف لے جاتے اور پھر وہ تھوڑی دیر کے بعد تندرست ہو کر آجاتے ، میں نے دیکھا میرے جُسّے بھی زخمی ہوئے اور انہیں اٹھا کر ایک زمین دوز کمرے میں لے جاتے وہاں باقاعدہ عربی لباس پہنے نرسیں اور ڈاکٹر موجود ہوتے جو ان کی مرہم پٹی کرتے اور جنّات کو گولہ لگتا تو وہ موقع پر ہی مر جاتے۔ دوبارہ زندہ نہ ہو سکتے تین دن یہ لڑائی جاری رہی اور آخر بغیر جیت ہار کے ختم ہو گئی ۔ لڑائی کے بعد پتہ چلا کہ یہ لڑائی ابلیس کا اور تمہارا مقابلہ ہے جتنا جلد ہو سکے عمل تکسیر پڑھ لو اور آج رات ہی عمل تکسیر پڑھنے کا ارادہ کر لیا۔ رات کو جنگل میں گیا قبر مبارک کا نقشہ بنایا اور اپنے چاروں طرف حصار کر لیااور حصار سے لے کر حد ِ نظر تک جنّات اور موکلات پھیل گئے اور میرے سر پر بھی نگرانی کرنے لگے اذان کے بعد جب سورہ مزمّل پڑھنے لگاتو ایک اونٹ حصار کے اندر سے ہی زمین سے نکلااس کی گردن بہت لمبی اور منہ بہت چوڑا تھا آہستہ آہستہ میرے سر کی طرف لپکا اور میرا سر گردن تک اس کے منہ میں آ گیا ۔ باقاعدہ اس کے دانت مجھے اپنے گلے میں چبھے ہوئے محسوس ہوئے اور میں موت سے بے نیاز سورة مز مّل پڑھتا رہا ۔ وہ دانت دبانے کی کوشش کرتا لیکن دانتوں کی صرف رگڑ ہی گردن پر محسوس ہوتی ۔ جب سورة مزمّل ختم ہوئی تو ایسے لگا جیسے کسی نے اسے کوڑا مارا ہو اور وہ چیختا ہو ا بھاگا۔ اس کی چیخ سے جنّات اور موکلات ہوشیارہوئے لیکن وہ کسی کو بھی نظر نہ آیا پتہ چلا کہ ابلیس اس عمل کی رکاوٹ کے لئے آیا تھا جو کامیاب نہ ہو سکااب میری ہمت بڑھی اور باطنی طور پر جنّات اور موکلات کو ساتھ لیا اور اس پر حملہ کرنے کی کوشش کی ۔ پہاڑوں میں بڑے بڑے محل اور قلعے نظر آئے ۔ وہاں کے پہرہ داروں سے مقابلہ ہوتا اکثر بھاگ جاتے لیکن ابلیس کہیں نہ ملتا ۔ ایک دفعہ اس تک ایک قلعے میں پہنچ گئے لیکن وہ طوطا بن کر اڑ گیا ۔ ہم نے بھی اس کا تعاقب نہ چھوڑا ۔ تین دن سے بھوکے پیاسے تھے یہی دھن تھی کہ ابلیس کو پکڑ کر مار اجائے تاکہ ہر کسی کا چھٹکارا ہو جائے صحرا میں بیٹھا کوئی تدبیر سوچ رہا تھا ۔ دیکھا کچھ بزرگ گھوڑوں پر سوار میری طرف آئے ۔ کہنے لگے ادھر کیا ڈھونڈتا ہے ۔ میں نے کہا ابلیس کو پکڑ کر ختم کرنے کا ارادہ ہے وہ بہت ہنسے اور کہنے لگے ارے نادان تو کس چکر میں لگ گیا اگر اس کا مرنا ہوتا تو کیاہم چھوڑ دیتے ۔ بات میری سمجھ میں بھی آئی ۔ ان کا شکریہ ادا کیا اور واپس چھونپڑی میں پہنچ گیا۔ میں نے اپنے آپ کو مضبوط کرنے کے لئے جُسّوں کے ذریعے عمل تکسیر پڑھنا شروع کر دیا اور ساتھ ہی رسالہ روحی شریف اور دُعا ئے سیفی کا وظیفہ شروع کر دیا عمل تکسیر کا فائدہ یہ دیکھا کہ ہر دربار والے بزرگ نے ہماری مناسب امداد کری بلکہ ہمارا کوئی بھی شخص کسی دربار پر جاتا اہل قبر اس کی مدد کرتے اور اس عمل کی وجہ سے کشف القبور کا سلسلہ پھیلا۔
.

No comments:

Post a Comment