.
ایک دوپہر کو میں چشموں کی طرف چلاگیاراستے میں ایک نوجوان عورت لیٹی ہوئی تھی۔اس نے مجھے بڑی عاجزی سے پکاراکہ سائیں باباادھر آؤ۔ میں اس کے قریب چلاگیااورپوچھاکہ تم اس ویرانے میں اکیلی کیوں اورکیسے آئی ہو۔وہ رونے لگی اورکہامیری کوئی اولادنہیں ہے دعاکرواللہ تعالیٰ مجھے ایک فرزند دے دے میں نے کہامیں ابھی دعاؤں کے قابل کہاں ہوا۔پھرکہنے لگی اچھاہاتھ لگاکردیکھوکہ پیٹ میں بچہ ہے یانہیں۔میں نے کہاکسی عورت کودکھاناکہنے لگی اس وقت تم ہی سب کچھ ہواورپھربانہوں سے لپٹ گئی اس کی آنکھیں بلور کی طرح چمک رہی تھیں اورمیں بانہوں سے چھڑانے کی کوشش کرتارہالیکن اس کی گرفت سخت تھی ۔آخرمیں نے عاجزی سے کہااے محترمہ مجھے چھوڑدے ۔میں اس وقت چلہ میں ہوں اورجلالی اورجمالی پرہیز کی وجہ سے دنیاکو چھوڑے ہوئے ہوں۔کہنے لگی مجھے اس سے کیااورپھرگریبان بھی پکڑلیا۔اتنے میں تین چارآدمی چشموں کی طرف سے آتے ہوئے دکھائی دیئے اوراس نے مجھے چھوڑدیااورمیں باغ میں واپس پہنچ گیا۔اب اس عورت نے بھی باغ میں ڈیرا لگالیادن کو میرے آگے پیچھے گھومتی رہتی لیکن رات کو کہیں نظرنہ آتی ایک ہفتہ اسی طرح گزرگیاایک رات وہ چلہ گاہ میں پہنچ گئی اورمجھے چھیڑنے لگی ۔پاس ہی قرآن مجید پڑا ہوا تھا۔اسے اٹھا کر پھینکنے لگی میں نے جلدی سے قرآن مجید اس کے ہاتھوں سے چھینا۔اب وہ مجھ سے لپٹنے کی کوشش کررہی تھی اورمیں اسے دھکے دے کر باہرنکالنے کی کوشش کررہاتھا۔اچانک اس کی صورت بدلناشروع ہوگئی غور سے دیکھابجائے ایک گوری نوجوان حسینہ کے کالی کلوٹی لاغرسی بڑھیانظرآرہی تھی جس کا چہرہ پچکاہوااورلمبے لمبے دانت باہر کونکلے ہوئے تھے میں گھبرایاسردی کے موسم میں پسینہ چھوٹاخیریت اس میں سمجھی کہ چلہ گاہ سے بھاگ جاﺅں ۔بھاگااورمستانی کی جھونپڑی میںچلاگیا۔مستانی ایک بڑی سی ریلی اوڑھے سورہی تھی میں اس کی ریلی ہٹا کراسکے قدموں کی طرف لیٹ گیا وہ عورت شیرنی کی طرح میرے پیچھے بھاگی۔جھونپڑی کیطرف بھی آئی مجھے کہیں نہ پاکرواپس چلی گئی اور اس واقعہ کے بعد دوبارہ کبھی بھی نظرنہ آئی۔
تقریباًآدھ گھنٹہ بعد مستانی نے کروٹ بدلی اس کے پاؤں میرے سر کولگے اوراٹھ کربیٹھ گئی۔میں نے کہاڈرو نہیں میں خودہی ہوں ۔کہنے لگی آج رات کیسے آگئے میں نے کہاویسے ہی۔ پھرپوچھاشاید سردی لگی ۔میں نے کہاپتہ نہیں اس نے سمجھاشاید آج کی اداﺅں سے مجھ پر قربان ہوگیاہے اورمیرے قریب ہوکرلیٹ گئی اورپھرسینے سے چمٹ گئی ۔ایک آفت سے بچادوسری آفت میں خودپھنسا۔ میں نے ہٹنے کی کوشش کی ایسالگاجسم میں جان ہی نہیںچپ چاپ لیٹاسوچتارہافقرکے لئے دنیاچھوڑی۔ لذات دنیا دچھوڑے اپنی خوبروبیوی چھوڑی ،جنگل میں ڈیرالگایا لیکن شیطان یہاں بھی پہنچ گیا۔اب اللہ تعالیٰ ہی حامی و ناصرہے کچھ دیر بعد صبح کی اذان ہوئی،جسم کو زبردست جھٹکالگاجیسے کسی نے بٹھادیاہواس کرنٹ کو مستانی نے بھی محسوس کیااوراس جھٹکے کے ساتھ مستانی کے ہاتھ بھی سینے سے ہٹ گئے اورمیں چلہ گاہ میں چلاگیا۔
اب تھوڑاسامستانی کاواقعہ بھی پیش کیاجارہاہے۔
پہلے دن جب لال باغ پہنچاتوکوئی خاص ریل پیل نہ تھی ،چلہ گاہ پرمحکمہ اوقاف کا ایک خاد م موجود تھا ۔مغرب کے وقت سب لوگ چلہ گاہ چھوڑ کر چلے گئے ۔جب میں مغرب کی نماز اورفاتحہ سے فارغ ہواتووہی مستانی میرے پاس آئی اوربڑے اخلاق اورپیارسے کہا بھائی اگرکسی چیز کی ضرورت ہوتوبتاﺅہم حاضرہیں اورمجھے اپنی جھونپڑی میں لے گئی اوراُبلے ہوئے نمکین چاول کھانے کو دیئے اورپھرایک بھنگ کاگلاس پیش کیا۔جسے میں نے قبول نہ کیا۔کہنے لگی تُوزیارتی ہے یافقر کے لئے آیاہے میں نے کہافقرکے لئے آیاہوں ۔کہنے لگی فقیر لوگ بھنگ چرس پیتے ہیں ۔میں نے کہایہ نشہ ہے جو شریعت میں حرام ہے کہنے لگی کیاتونے حضرت خضرؑاورموسیٰ ؑ کا واقعہ نہیں سنا۔موسیٰؑ شریعت کے عالم تھے اورخضرؑطریقت کے فقیر تھے جوموسیٰؑ کے نزدیک گناہ تھاوہ خضرؑکے نزدیک کارِ ثواب تھا۔سن ہم فقیر اسے کیوں پیتے ہیں جب دنیا کا خیال اورعزیزوں کی یاد ستاتی ہے توہم بھنگ یا چرس پی لیتے ہیں ،ان کے پینے سے سب خیالات کافورہوجاتے ہیں اوربس اللہ ہی یاد رہتاہے دوسری بات لوگ ہمیں فقیر سمجھ کر ہمارے پیچھے لگ جاتے ہیں اورہمارے اس فعل سے وہ متنفر ہوجاتے ہیں اورہمیں بھی ملامت ملتی ہے جوہمارے لئے سلامتی ہے قلندر پاکؒنے میری ڈیوٹی لگارکھی ہے کہ تم جیسے طالبوں کی خدمت او ررہبری کروں۔تیری ایک بیوی ہے جس کا رنگ سفیدہے اورجسم ذراموٹااورقددرمیانہ ہے تیرے تین بچے ہیں جن میں سے ایک کا تیرے آنے کے بعد انتقال ہوچکاہے جس کی تجھے خبرنہیں۔ تیرے مکان کے تین کمرے ہیں اور صحن میں شہتوت کا درخت ہے جو کمرہ مشرقی ہے اس میں بغیر داڑھی کے تیر افوٹو لگا ہواہے۔کیااب بھی تجھے مجھ پر یقین نہیں ،کیاکچھ اورکہوں ۔میں نے کہابس اورسوچتاہواچلہ گاہ کی طرف چلاگیاکہ یہ عورت تنہابے خوف اس جھونپڑی میں رہتی ہے جبکہ چاروں طرف ویرانی اورسناٹاہے اورجوکچھ اس نے بتایاہے وہ بھی صحیح ہے ۔صرف بچے کے انتقال کے بارے میں مجھے شک ہے یہ عورت چلہ گاہ کی خدمت بھی کرتی ہے ۔یہاں استدراج کا کیا کام ضرورکوئی اللہ والی ہوگی۔میںدن کو کبھی کبھی اس عورت کے پاس چلاجاتاوہ بھی عجیب وغریب فقرکے قصے سناتی اورکبھی قہوہ اورکبھی کھانابھی کھلادیتی۔باغ میں آنے کے بعد اڑھائی سال بعد میری ملاقات سہون شریف میں ایک رشتہ دار سے ہوئی ۔مختصر سی ملاقات میں انہوں نے بتایاتویہاں فقیری ڈھونڈ رہاہے گھرمیں تیراماتم ہوچکاہے۔تیری خالہ زاد بہن اورچھوٹابچہ بھی اللہ کوپیارے ہوگئے ہیں ۔تیرے ماں باپ ،بہن بھائی سخت پریشان ہیں ہوسکتاہے اسی ماہ تیری بیوی کانکاح تیرے چھوٹے بھائی سے کردیاجائے تُوگھرمیں جایا اپنی خیریت کی خبردے۔کچھ گھر کی یاد دوبارہ آنے لگی اورمستانی پربھی میراپختہ یقین ہوگیاکہ اس نے بچے کے بارے میں جوکچھ کہاتھاصحیح نکلا۔سہون شریف سے سیدھامستانی کی جھونپڑی میں پہنچااورلیٹ گیا۔اتنے میں مستانی باادب کھڑی ہوگئی اورمجھے بھی کھڑے ہونے کااشارہ کیا۔میں بھی مستانی کی طرح باادب کھڑاہوگیامستانی نے کہاکہ قلندرپاکؒ اوربھٹ شاہؒ والے آئے ہیں اورکہتے ہیں کہ ریاض کو گھرکی یادستارہی ہے ۔کافی کوشش کرتاہے کہ بھول جاؤں مگربھول نہیں پاتا۔اس کو ایک گلاس بھنگ کا پلادوتاکہ ذہن سے سب خیال نکل جائیں اس کے بعد مستانی نے جھک کرسلام کیااوربیٹھ کر بھنگ کوٹنے لگی ۔اس کا خیال تھایہ اب ضروربھنگ پیئے گا لیکن وہ بھنگ کوٹتی رہی اورمیں چلہ گاہ کی طرف چل دیا۔آج چلہ گاہ میں جب ذکر سے فارغ ہواتواونگھ آگئی ۔کیادیکھتاہوں ایک بزرگ سفید ریش چھوٹاقد میرے سامنے موجود ہے اوربڑے غصے سے کہہ رہاہے کہ تُونے بھنگ کیوں نہیں پی۔میں نے کہاشریعت میں حرام ہے ۔اس نے کہاشرع اورعشق میں فرق ہے کوئی بھی نشہ جس سے فسق وفجورپیداہوبہن بیٹی کی تمیز نہ رہے خلق خداکوبھی آزارہوواقعی وہ حرام ہے اورجونشہ اللہ کے عشق میں اضافہ کرے ،یکسوئی قائم رہے خلق خداکوبھی تکلیف نہ ہووہ مباح بلکہ جائزہے ۔پھراس نے کہاقرآن مجید میں صرف شراب کے نشے کی ممانعت ہے ۔جو اس وقت عام تھی بھنگ چرس کا کہیں بھی ذکرنہیں ملتاصرف علماءنے ا س کے نشے کو حرام کہاہے اگربات صرف نشے کی ہے توپان میں بھی نشہ ہے تمباکومیں بھی نشہ ہے اناج میں بھی نشہ ہے عورت میں بھی نشہ ہے دولت میں بھی نشہ ہے توپھر سب نشے ترک کردو۔اب وہ بزرگ بھنگ کا گلاس پیش کرتے ہیں اورمیں پی جاتاہوں اوراسکو بے حد لذیذ پایا۔
سوچتاہوں بھنگ کتناذائقہ دارشربت ہے ۔خواہ مخواہ ہمارے عالموں نے اسے حرام کہہ دیاجب آنکھ کھلی توسورج چڑھ چکاتھا،اب میرے پاؤں خودبخودمستانی کی جھونپڑی کی طرف جانے لگے ۔مستانی نے بڑی گرم جوشی سے مصافحہ کیااورکہارات کو بھٹ شاہ ؒوالے آئے تھے اور تمہیں بھنگ پلاکرچلے گئے ۔تم نے ذائقہ توچکھ لیاہوگایہی ہے شرابِ طہورا۔مستانی نے کہابھٹ شاہ ؒوالے حکم دے گئے ہیں اس کو روزانہ ایک گلاس الائچی ڈال کرپلایاکرو۔ میں سوچ رہاتھاپیوں یا نہ پیوں کچھ سمجھ میں نہیں آرہاتھاکیونکہ کچھ بزرگوں کے حالات کتابوں میں پڑھے تھے کہ ان کی ولایت مسلّم تھی لیکن ان سے بظاہر کئی خلاف شریعت کام سرزد ہوئے جیساکہ سمن سرکار کابھنگ پینا،لال شاہ ؒکانسوار اورچرس پینا،سداسہاگنؒ کاعورتوں سالباس پہننااورنمازنہ پڑھناامیرکلال کا کبڈی کھیلنا،سعید خزاری کا کُتوں کے ساتھ شکارکرنا،خضرعلیہ السلام کا بچے کو قتل کرنا،قلندرپاک ؒکانمازنہ پڑھنا۔داڑھی چھوٹی اورمونچھیں بڑی رکھنا۔حتیٰ کہ رقص کرنا رابعہ بصری کا طوائفہ بن کر بیٹھ جانا۔شاہ عبدالعزیز ؒکے زمانے میں ایک ولیہ کا ننگے تن گھومنا لیکن سخی سلطان باھُوؒنے فرمایاتھاکہ بامرتبہ تصدیق اورنقالیہ زندیق ہیں ۔مجھے بھی ماسوائے باطن کے ظاہرمیں کچھ بھی تصدیق کا ثبوت نہ تھاخیال آتاکہ کہیں پی کرزندیق نہ ہوجاؤں۔ پھرخیال آتاکہ اگربامرتبہ ہواتواس لذیزنعمت سے محروم رہوں گا۔آخریہی فیصلہ کیا،تھوڑاساچکھ لیتے ہیں اگررات کی طرح لذیز ہواتوواقعی ہی شراباًطہوراہی ہوگا۔
آج مستانی میرے اقرار پر بہت خوش ہے اس نے بھنگ میں پستہ بادام اور الائچی بھی ڈالی ہے۔گلاس میں برف بھی پڑی ہوئی ہے گلاس ہاتھوں میں لیتا ہوں ہاتھ کانپتے ہیں اور اوپر کو نہیں اٹھتے ہمت کر کے منہ تک لے آتا ہوں ۔دیکھتا ہوں چھپکلی نما کیڑے شربت میں نیچے اوپر ہو رہے ہیں میں نے گھبرا کر گلاس رکھ دیا اور اٹھ کر چپ چاپ چلا گیا ۔ مستانی میری اس حرکت سے سخت ناراض ہے کئی دن تک مجھ سے بات نہیں کری اور میں نے بھی جھونپڑی میں جانا چھوڑ دیا محرم کی نو تاریخ ہے۔ مستانی نے مجھے بلایا اور حضرت امام حسینؓ کی یاد میں گلے سے لگا کر رونا شروع کردیا۔ اتنا روتی ہے جیسے اس جیسا غم خوار دنیا میں کوئی نہ ہوگا اور ان کی یاد میں میرے بھی آنسو بہنا شروع ہو گئے۔اس واقعہ کے بعد میں اورمستانی پہلے سے بھی زیادہ قریب ہو گئے۔ وہ ہربات پر بھائی بھائی کہہ کر پکارتی اور کبھی سرکو دبا بھی دیتی ۔اب وہ بالکل بھنگ کے لئے مجبور نہیں کرتی بلکہ میری موجودگی میں خود بھی بھنگ نہیں پیتی ۔کبھی کبھی اس کی آنکھوں میں عجیب سی مستی چھا جاتی ۔ پھر مختلف اداؤں سے باتیں کرتی ،سیاہ چہرے کو آٹے سے سفید کرتی ۔ لڑکیوں کی طرح اتراتی جبکہ اس کی عمر پچاس سال کے لگ بھگ تھی ،کبھی میرے ہاتھ کو پکڑکر سینے سے لگاتی اور کبھی ناچنا شروع ہو جاتی اور میں اس کی عادت سمجھ کر نظر انداز کر دیتا۔
.
No comments:
Post a Comment