Thursday, March 5, 2009

PAGE 3

.
کچھ ماہ بعد اس بکرے کی شکل بدلناشروع ہوگئی کبھی تووہ مجھے بکرادکھائی دیتااورکبھی میری شکل بن جاتا۔اب وہ میری شکل بن چکاتھا۔فرق صرف آنکھوں میں تھا اس کی آنکھیں گول اور بڑی تھیں میرے ساتھ ذکر میں بیٹھتامیرے ساتھ نمازپڑھتااورکبھی کبھی مجھ سے باتیں بھی کرتااورایک دن اس نے اپنا سرقدموں میں رکھ دیا اور کہااے باہمت شخص ،جانتاہے میں کون ہوں میں نے کہا خبرنہیں کہنے لگامیں تیرا نفس ہوں میں اور میرے مرشدنے تجھے دھوکہ دینے کی بہت کوشش کی لیکن تیرامرشدکامل تھاجس نے تجھے بچالیا۔میں نے کہامیرامرشدکون ۔اس نے کہاجس سایہ سے تجھے ہدایت ہوئی وہ تیرامرشدتھااورجس کی وجہ سے تجھے بدگمانی ہوئی وہ میرامرشدابلیس تھاجو تیرے مرشد کے روپ میں پیشاب میں نظرآیاجو مصنوعی ۔۔۔رسول ۔۔۔۔بن کرآیاتھاوہ بھی میرامرشدہی تھااوراس وقت جس نے تجھے سجدہ ابلیس سے بچالیاوہی تیرامرشدتھا ۔

آج آدھی رات ہوچکی ہے میں حسبِ معمول ذکرانفاس میں مشغول ہوں چلہ گاہ کے باہر گھنٹیوں کی آوازیں آناشروع ہوگئیں اور آہستہ آہستہ میوزک کی طرح بلندہونے لگیں ۔میں نے چلہ گاہ سے اُٹھ کردیکھاپندرہ بیس لڑکیاں گول دائرے کی شکل میں رقص کررہی تھیں جسم پتلے اور قد درمیانہ تھے پشت پرپرندوں کی طرح پر لگے ہوئے تھے جن کے اوپربال تھے رقص بھی انوکھا اور مخلوق بھی عجیب تھی۔ سماں بھی دن کی طرح ہوگیاتھامیں نے سمجھا پریاں ہیں اور ان کا رقص دیکھنے میں محوہوگیا۔ آوازآئی انہیں چھوڑ اور ذکرکر ۔میں نے کہا ذکرتوروزہی کرتے ہیں اور روز ہی کریں گے لیکن یہ رقص توکبھی نہیں دیکھااور شاید آی ¿ندہ بھی نہ دیکھ پائیں۔میں چاہتاتھاکہ ان کی شکل بھی صاف صاف نظر آئے میں دو قدم آگے بڑھتاان کا دائرہ بھی دوقدم پیچھے ہٹ جاتااور اسی طرح بڑھتے ہٹتے ہوئے اور ان کے چہرے کا تجسس لئے ہوئے میں باغ سے باہر نکل گیااور پھر وہ مخلوق نظروں سے غائب ہوگئی۔ بڑے بڑے قد کے کالے آدمی میرے اوپر جھپٹے خوب مارااتناماراکہ میں بے ہوش ہوگیاجب سورج کی روشنی منہ پڑی تو ہوش آیا جسم سخت دکھ رہاتھا ہر ہڈی درد ظاہر کررہی تھی سوچااگر مرجاتاتوکیاہوتا،وہ سائے جو اردگرد منڈلاتے رہتے تھے آج وہ بھی کام نہ آئے ان پر توقع بیکارہے میں اپنے آپ کو ایک ولی سمجھناشروع ہوگیاتھالیکن آج پتہ چلاکہ میں کچھ بھی نہیں خواہ مخواہ اتناعرصہ ضائع کیاپھر وہی خیالات شروع ہوگئے دھوبی کا کُتاگھرکا نہ گھاٹ کا۔اگرتیرامرشد کامل ہوتاتوضرورمدد کو پہنچتااور اس بزرگ کی بات بھی یادآئی کہ ہرشخص قلندرنہیں بن سکتا،اب ماں ،باپ اور بچے یاد آناشروع ہوگئے۔سوچا کہ کسی سے کچھ رقم مانگ کر نواب شاہ چلاجاﺅں گا ۔وہاں رشتہ دارہیں ان سے کرایہ لے کر پنجاب چلاجاﺅں گا ،چلہ گاہ میں ایک خادم بنام صالح محمد تھا وہ مجھ سے بہت عقید ت رکھتااورڈیوٹی والافقیر سمجھتا۔میری نظر اس پر تھی آج وہ چلہ گاہ میں نہ آیا۔درد اور بدگمانی کی وجہ سے آج مجھ سے کوئی نماز اد انہ ہوئی ساراد ن مستانی کی جھونپڑی میں پڑارہاحتیٰ کہ مغرب کی نماز کا وقت ختم ہو گیا اورپھر فاتحہ کا وقت بھی ختم ہونے لگا۔آسمان پر اندھیرا چھا چکا تھا اچانک میری نظر شمال کی طرف آسمان پر پڑی توکچھ عربی الفاظ نظرآئے ۔غورسے دیکھاتو الا ان اولیاءاللہ لاخوف علیھم ولا ھم یحزنونلکھاہواتھا۔میرے دل میں خیال آیا،یہ جو آیت آسمان پردکھائی گئی اللہ کے حکم سے ہوگی یعنی اللہ کی رضاہے جب اللہ کی رضاہے توپھرڈرکس کاہمت کی اور چلہ گاہ میں پہنچ گیا۔اب میراتوکل بجائے بزرگوں کے اللہ پرقائم ہوچکا تھا۔ایک دن باغ میں لیٹ کر مراقبے کی کوشش کررہاتھا،ششکار کی آوازسنائی دی آنکھیں کھول کردیکھاتقریباًایک گز کا سانپ مجھے گھور رہاتھااب وہ میری طرف بڑھامجھے وہ آیت یا د آئی سوچااس کی حقیقت کا تجربہ کیا جائے وہ بالکل میرے منہ کے قریب پہنچ گیا جونہی وہ ماتھے کو کاٹنے کے لئے لپکامیں نے آنکھیں بند کرلیں،ماتھے پر زبان لگائی اور پیچھے ہٹ گیااور اس طرح تین دفعہ اس نے کاٹنے کی کوشش کی آخرچلاگیا اس واقعہ کے بعد میرایقین بہت ہی پختہ ہوگیاتھا۔

رات کے تقریباًتین بجے ہوں گے ذکر کی مشق کے بعد کھڑے ہوکر درود شریف کا ورد کررہاتھا۔فجر کا سماں ہوگیاچشموں کی طرف سے بے شمار مرد اوربے شمارعورتیں قطار درقطارکھڑی ہیں ،سوچتاہوں کہ شاید آج کوئی مرتبہ ملنے والاہے یہ لوگ مجھے دیکھنے کے لئے آئے ہیں لیکن خیال آتاہے کہ ان کی پشت میری طرف ہے یہ کسی اور کا انتظارکررہے ہیں مغرب کی طرف سے ایک سبزرنگ کا روضہ اُڑتاآرہاہے اورجہاں وہ لوگ جمع ہیں وہیں اترگیا۔روضے میں سے ایک نورانی صورت نمودارہوئی عورتوں نے دیکھ کرجھومناشروع کردیا ان کی زبان پریہ الفاظ تھے۔ یانبی سلام علیک یارسول سلام علیک مرد بھی جھو م رہے تھے اور الصلٰوة والسلام علیک یارسول اللہ پڑھ رہے تھے اب وہ بزرگ مجمع سے گزرکر میری طرف بڑھے جوں جوں قریب آرہے تھے خوشی سے آنسو جاری ہوگئے دیکھنے کی خواہش ہے لیکن نظراوپرکو نہیں اُٹھتی نورہے جسے آنکھوں کو دیکھنے کی تاب نہیں۔

نہ دیکھوں توارمان رہے اور دیکھو ں توجان جائے۔

جب تقریباًدس بارہ فٹ کے فاصلے پرپہنچے توجسم جھومتے جھومتے بے قابو ہوگیااورزمین سے تین چارفٹ اُٹھ گیا،یعنی ہوامیں جھوم جھوم کر درود شریف پڑھاجارہاتھا۔مستی کا عالم بڑھا بے ہوشی طاری ہونے لگی اورپھر جسم کے زمین پرگرنے کی آوازسنائی دی جب ہوش آیا تووہ پوراعلاقہ کستوری جیسی خوشبو سے مہک رہاتھا۔دوسری شب روضہ مبارک کی حاضری ہوئی جب دروازے سے اندرداخل ہواتودیواروں سے اتنانوربرس رہاتھاکہ آنکھیںاوپر اٹھائی نہ جاسکتی تھیں کچھ قدم آگے بڑھا لیکن تاب نہ لا سکنے کی وجہ سے واپس آناپڑا۔تین دن بعد پھر روضہ مبارک کا دیدارہوا۔اب بھی دیواروں کی وہی حالت تھی لیکن آنکھوں میں کچھ تاب آگئی تھی اس وجہ سے نظر حضورپاک ﷺ کے قدموں تک پہنچ گئی لیکن چہر ہ مبارک کونہ دیکھا جاسکااورپھر کئی دنوں کے بعد آخر نظرچہرہ مبارک پر ٹک ہی گی پھرایسی ٹکی کہ ہٹنے کانام ہی نہ لیتی۔مجبوراًواپسی ہوتی اوریہ شعر دل میں گونجتارہتا۔

ہم مدینے سے اللہ کیوں آگئے قلب حیراں کی تسکیں وہیں رہ گئی

اس وقت چلہ گاہ پر کوئی چھت نہیں تھی رات کوبارش ہوتی رہی اورمیں بھیگتارہا۔صبح مطلع صاف ہوگیا دل چاہتاہے کہ کوئی اللہ کا بندہ ایک کپ چائے ہی پلادے۔ سامنے رمضان کا ہوٹل ہے چائے بن رہی ہے۔ لوگ پی رہے ہیں اورمیں خیالات میں غرق ہوں کہ تیرے ماں باپ ،بہن ،بھائی،اولاد کاروبار سب کچھ ہے لیکن آج تیرے پاس ایک اٹھنّی بھی نہیں کہ چائے کی پیالی پی سکے ۔مجھے اپنی بے بسی پرخیال آیا اورساتھ دوچارآنسوبہہ گئے۔ اتنے میں ایک شخص آیا اورزبان پر ہاتھ رکھ کر دعاکے لئے اشارہ کیا رمضان بھی پہنچ گیا۔اس نے بتایاکہ ایک سال سے اس کی زبان بندہے ہرعلاج کیاہردربارپرگئے مگرزبان نہ کھل سکی میں نے ویسے ہی کاغذپنسل منگواکر آیت الکرسی لکھ دی کہ اسے پلادو۔وہ شخص پانی پیتے ہی بولناشروع ہوگیا۔اسی وقت لال باغ میں نعرے لگے اورچائے بسکٹوں کاڈھیر لگ گیااورمیرے آنسو پھرجاری ہوگئے کہ اے مالک تیراشکر ہے کہ ایک ناچیز بندہ کو اس قابل بنادیااس واقعہ کے بعد لوگ میری بہت عزت کرتے اورضرورت کی ہرچیز بغیر طلب کے ملناشروع ہوگئی چار سال پھٹاپراناجوڑااترااورنیاکرتااورپاجامہ زیب تن ہوا۔ہر ہوٹل والے کی خواہش ہوتی کہ چائے اورکھانایہیں سے کھائے لوگ بھی دوردور سے دیکھنے کے لئے آتے۔گھر کادیسی گھی مکھن اورمٹھائی وغیرہ لے آتے ۔

ایک رات چشموں کی طرف سے اللہ ھُو کی آواز آنے لگی سمجھاکوئی طالب اللہ ہوگا جاکردیکھتے ہیں چاندنی رات تھی ایک ادھیڑ عمر کا آدمی اِدھراُدھر سے بے خبرذکر میں مشغو ل تھا،جب اللہ کہتاتوآسمان کی طرف ہاتھ پھیلاتا۔جب ھُوکرتاتودونوں ہاتھوں کو اپنے منہ کی طرف لے آتاجیسے منہ میں کوئی چیز ڈال رہاہو۔میں کافی دیر تک اس انوکھے طریقے کو دیکھتارہااورپھرواپس چلہ گاہ میں آگیاتھوڑی دیرمیں قریبی مسجدسے فجر کی اذا ن بلندہوئی مسجد میں گیاوہی رات والا ذاکرنمازپڑھ رہاتھامیں نے بھی جلدی جلدی نماز پڑھی تاکہ اس سے کچھ رازمعلوم کرسکوں اس سے پوچھاآپ رات کو ذکرکررہے تھے اس نے کہاجی ہاں میں نے کہا یہ ذکرکتنے عرصے سے کررہے ہیں ۔کہنے لگابارہ تیرہ سال ہوچکے ہیں پوچھا یہ طریقہ کونساہے کہنے لگاجب ہاتھ اوپراٹھایا توتصور یہ ہوتاہے کہ اللہ کو پکڑرہاہوں جب ہاتھ منہ کی طرف لایاتوتصور یہ ہوتاکہ اللہ میرے منہ میں چلاگیاہے ۔پوچھایہ طریقہ کس نے سکھایااس نے کہاایک ملنگ ملاتھااس نے اس طرح بتایاپوچھاکوئی کامیابی ہوئی کہنے لگادل تک توابھی ذکرنہیں پہنچا لیکن اتناضرور ہواکہ جب خانہ کعبہ میں اذان ہوتی ہے تومجھے یہاںسنائی دیتی اس نے بتایاکہ مچھیراہوں۔ماچھی گوٹھ کے سامنے میری جھونپڑی ہے جس میں میرے بیوی بچے موجودہیں میں دن کو مچھلیاں پکڑتاہوں اور رات کااکثرحصہ اسی طرح ذکرمیں گزارتاہوں تین ماہ کی بات ہے میری کشتی میں ایک خوبصورت عورت اکیلے میں بیٹھ گئی میں نے بے خودی سے اس کی انگلی پکڑلی اس واقعہ کے بعد وہ اذان کی آوازختم ہوگئی میں تویہی سمجھاکہ بارہ سال کی محنت ایک پل میں ضائع ہوگئی اس کی آنکھوں میں آنسو آئے اور ایک طرف چل دیا۔

لال باغ میں دن کو زائرین آتے اوررات کو طالب اپنی قسمت آزماتے ۔ایک رات جب کہ میں اپنے ذکر میں مشغول تھا چلہ گاہ سے باہر حق اللہ کی صدابلندہوئی تھوڑی دیرتک حق اللہ ہوتارہاپھرایسے لگاجیسے کوئی کسی کو ڈنڈے ماررہاہواورپھرگالیاں بکنے کی آوازآنے لگی ساری رات بے لطفی میں گزری ۔صبح جب چلہ گاہ سے باہر نکلا دیکھا کافی ضعیف آدمی لیٹاہواتھا۔مجھے دیکھ کربیٹھ گیااور اپنی طرف بلالیااورکہنے لگا توساری رات ذکر کرتاہے کیا تجھے رکاوٹ نہیں ہوتی میں نے کہا پہلے توکبھی نہیں ہوئی لیکن آج آپ کے آنے سے ہوئی ،کیونکہ تم کبھی زمین پرڈنڈے مارتے اورکبھی گالیاں دیتے تھے کہنے لگا بخدا میں تمہیں گالیاں نہیں دے رہا تھا بلکہ جب میں ذکرکرتاکچھ آدمی ڈنڈے لے کرآتے اورمجھے مارتے اورپھر میں ان کو اپنے ڈنڈے سے مارتاپھر وہ مجھے گالیاں بکتے اورمیں ان کو بکتا ۔۔۔۔۔عرصہ چھ سال سے یہی حال ہے سوچاکہ چلہ گاہ پر قسمت آزماﺅں لیکن کم بخت یہاں بھی پہنچ گئے ۔میں نے کہاکوئی مرشد پکڑوجو ان سے نمٹے کہنے لگاظاہرمیں توکوئی ایسانظرنہیں آتاجو اس راستے پرچلاسکے ۔ایک دن میں مرید ہونے کے لئے غارکے پاس والے مزارپرگیا۔راستے میں آوازآئی میں ہی تمہارا لئے کافی ہوں ۔میں نے سمجھااللہ تعالیٰ کی آوازہے اورپھرمیں نے کبھی بھی مرشد کے بارے میں نہ سوچا۔تقریباًایک ماہ تک بڑے میاں اسی طرح شور شراباکرتے رہے ایک صبح دیکھاکہ بڑے میاں آسمان کی طرف ٹکٹکی باندھے ہوئے ہیں ظہر تک اسی حال میں رہے لوگوں کاخیال تھاکہ دیدارِالٰہی میں پہنچ گئے ہیں عصر کے وقت کچھ سائے نظرآئے جو بڑے میاں کو باندھ کر دریاکی طرف لے جارہے تھے اوربڑے میاں کو دریامیں گرادیا۔

لوگوں نے ان کو دریاسے نکالاا ن کی زبان پریہ الفاظ تھے ۔مجھے فوراًدربار شریف لے چلو ۔یہاں شیطانوں نے پریشان کردیاہے لوگ انہیں ٹانگے میں ڈال کرسہون شریف لے گئے اوربڑے دروازے کے نزدیک ہی ان کو لٹادیاوہاں ان کی حالت کچھ سنبھلی لیکن شناخت کا مادہ ختم ہوگیااورکچھ دنوں کے بعدان کا انتقال ہوگیا۔

ایک دن باغ میں ایک لمباتڑنگا عمررسیدہ شخص آیااورمجھے گھورنے لگااورپھر چشموں کی طرف چلاگیا۔تقریباًتین بجے شب وہ دوبارہ آیا۔اندھیرے میں اس کی آنکھیں آگ کے انگاروں کی طرح چمک رہی تھیں جوں جوں قریب آتاجسم میں سنسنی پھیل جاتی ۔حتیٰ کہ بالکل ہی دوتین فٹ کے فاصلے پرآگیا میں نے دیکھا کہ میرے سینے کے ذکربہت ہی تیزہوگئے اورسینے سے ایک سفید رنگ کا شعلہ نکلا جو اس کے جسم پرپڑااوروہ اس شعلے کی تکلیف سے چند قدم پیچھے ہٹ گیا۔اب اس نے پتھر اٹھاکرمجھے مارنے شروع کردیئے ۔اب میری شکل کا ایک اورآدمی اس کے سامنے آگیااورمیں اس کی نظروں سے اوجھل ہوگیا۔وہ میراکوئی جُسّہ تھاوہ آدمی کچھ پڑھ کرجُسّے پرپھونکتا توآگ کے شعلے نکلتے اورجُسّے کو تکلیف ہوتی اورجُسّہ کچھ پڑھ کراس پرپھونکتاتواس کو تکلیف ہوتی ۔تقریباًآدھ گھنٹہ ایسا ہوتا رہا اور پھر اس کے منہ سے لگاتار آگ نکلنا شروع ہوگئی اورجُسّہ فوراًکھجورکے درخت پرپرندے کی طرح اڑکربیٹھ گیااس کے منہ کی آگ وہاں تک نہ پہنچ سکتی تھی اس لئے اس نے درخت پرپتھر برساناشروع کردیئے اورکوئی بھی پتھر جُسّے کو نہ لگا۔حتیٰ کہ غصے میں آکر اس نے درخت پرچڑھنا شروع کیا اور جب وہ جُسّے کے قریب پہنچا توجُسّہ شاہین کی طرح آسمان کی طرف پروازکرگیااوروہ دیکھتاہی رہ گیا۔وہ یہی سمجھ رہاتھاکہ ساراکمال میرے ظاہری جسم کا ہے اورپھر حیرانی وپریشانی کی حالت میں وہ باغ سے باہر چلاگیا۔اس واقعہ کے بعد میرا جُسّہ کئی لوگوں کو ظاہرمیں ملنا شروع ہوگیا۔ لوگ مجھے سہون دیکھتے جب لال باغ آتے تویہاں بھی موجودپاتے اورپھرمیری شکل کے نو( ۹) انسان ظاہر ہوئے جب ذکرکرتاحلقہ بناکربیٹھ جاتے اورجب نمازپڑھتاتومقتدی بن جاتے ۔جب میں سوتامیری حفاظت کرتے اورنماز کے لئے جگادیتے اوربعد میں ان ہی جُسّوں نے خدمت خلق کاکام انجام دیا،یعنی جنات کے مریضو ں کے جنات پکڑتے۔
کشف والوں کی رہبری کرتے اورمیرے عقیدت مندوں کو خواب یا ظاہر میں میراکوئی پیغام پہنچاتے۔جن لوگوں کا اسم ذات کاذکردیاجاتاان کے دل کی دھڑکن کے ساتھ اللہ اللہ ملانے کی کوشش کرتے ۔اس طرح ہزاروں کے قلب اسم ذات سے منورہوئے۔
.

No comments:

Post a Comment