.
ایک رات دیکھا کہ ایک سفید رنگ کی روشنی کار کی بتیوں کی طرح تیز کمرے میں پھیلی جب کہ سردیوں کا موسم تھا اور کمرہ چاروں طرف سے مکمل بند تھا۔ میں اور میرا بھائی عمر تقریباً ۸۱ سال اور میری بیوی کمرے میں سو رہے تھے بھائی ڈر کر چیخنے لگا اور بیوی بھی گھبرائی اور میں بھی حیران تھا کہ یہ روشنی کہاں سے آئی اور ایک لمحہ کے بعد کہاں چلی گئی میں ابھی سوچ رہا تھا کہ کمرہ پھر منور ہوا ۔ روشنی آنکھوں کو خیرہ کر دینے والی تھی منٹ آدھ منٹ کے بعد ختم ہو گئی اس روشنی کے بعد مجھے سخت بخار ہو گیا اور چارپائی بھی ساری رات لرزتی رہی ۔ دوسری رات تقریباًاسی وقت روشنی میں ایک بزرگ نظر آئے مجھ سے مخاطب ہوئے اور کہا۔ بیٹا اب تمہارا وقت آچکا ہے ہوشےار ہو جاو ¿ ۔ باقاعدہ نماز شروع کرو ۔ گناہوں سے تائب ہو جاو ¿ روزانہ بعد نماز مغرب کسی شیریں چیز پر اولیاءانبیاءکی ارواح کے لئے فاتحہ پڑھا کرو تاکہ تمہارے گناہوں کا کفارہ ادا ہو اور فرش پر سویا کرو۔ میں نے ان نصیحتوں پر دل سے عمل شروع کر دیا ۔
وہ بزرگ اکثر نظر آتے رہتے ۔کبھی بات کرتے اور کبھی بغیر بات کے غائب ہو جاتے ایک دن میں بری سرکارؒ کے مزار پر گیا وہی بزرگ ایک سائے کی شکل میں چادر پر بیٹھے نظر آئے ۔ ہر سوا ل کا جواب تسلی بخش دیا۔ اب مجھے یہ یقین ہو چکا تھا کہ بزرگ بری امامؒ کی روح مبارکہ ہے یہ باتیں میرے دوستوں اور رشتہ داروں کو بھی معلوم ہوئیں کوئی کہتاصحیح ہو گا ۔اکثر فراڈہی سمجھتے۔ میرے محلہ میں ایک نوجوان لڑکی چند ماہ سے پاگل ہوگئی تھی نہ ڈاکٹروں اور نہ ہی عاملوں کے تعویزات سے اثر ہوتا ۔میرے ماموں شش و پنج میں تھے مجھے ان کے گھر لے گئے اور کہا اپنے بزرگ کو بلاو ¿ تاکہ لڑکی ٹھیک ہو جائے۔ان کامطلب تھا کہ اس طرح حق و باطل کا پتہ چل جائے گا ۔وہی سایہ میرے سامنے آیا لڑکی پر دم کیااورپانی بھی دم کر کے دیااورلڑکی ٹھیک ہوگئی ۔اسکے بعد ایسے مریض آناشروع ہوگئے جنہیں شفاءہوجاتی اورمیری انڈسٹری کا کاروبار بھی خوب چمکنے لگا،تقریباًایک سال کے بعد اس سایہ نے حکم دیا کہ اب تزکیہ ¿ نفس کے لئے تین دن کے اندراندر دنیاچھوڑدو۔حکم کو تیسرادن تھا رات کے بارہ بج رہے تھے بیوی کو ایک نظرسرسے پاؤں تک دیکھاسب سے لاڈلے بچے کو آخری بوسہ دیااورآنکھوں میں آنسو لئے ہوئے دھیرے دھیرے قدموں سے نامعلوم منزل کی طرف روانہ ہواقدم لڑکھڑارہے تھے اتنے میں ایک ٹیکسی قریب آکررکی پوچھاکہاں جاناہے میں نے کہاجی ٹی ایس کے اڈے پر،ٹیکسی سڑک پردوڑرہی تھی اورمیں اپنے آبائی شہر کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خیرآبادکہہ رہاتھا۔ داتاصاحب ؒ اورپھرسخی سلطان باھُوؒ کے دربار پرگیااوران ہی کے حکم کے مطابق نورالہدیٰ خریدی اورپھر سہون شریف کے لئے روانہ ہوگیا۔بس کے طویل سفر میں نورالہدیٰ کو پڑھتارہااس کی ہر سطر میرے دل میں اثرکررہی تھی،ایک جگہ پرلکھاتھاکہ جواس کتاب کو پڑھ کربھی واصل باللہ نہ ہواکم بخت بے نصیب ہے اورمیں اب دوبارہ اپنے نصیبوں کو آزمانے کے لئے ایک سہارے کے ساتھ جارہاتھاکسی اسٹاپ پربس رکی میں پانی پینے کے لئے ایک ہوٹل میں گیامیں نے دیکھامیرامنہ بہت لمباہوگیاہے اپنی ٹھوڑی اورہونٹ دکھائی دینے لگے۔قدم ادھرڈالتاادھر پڑتالوگ مجھے عجیب نظروں سے دیکھتے اورمیں بھی سمجھ چکاتھا کہ یہ کتا ب پڑھ کرواقعی دیوانہ جسم ہوگیاہوں ۔میں نے سوچا اب تودنیامیں رہنے کے قابل بھی نہ رہا۔ہرشخص اس عجیب شکل اورعجیب چال پرمذاق اڑائے گا۔ایسے جانوروں کاٹھکانہ جنگل ہی ہے۔ سکھر تک بس کاسفرکیااب ریل سے سہون شریف جانا تھا۔ ریل میں اونگھ آگئی دیکھا سامنے لال شہبازقلندرؒ کا روضہ ہے۔میں وہاں کھڑاہوں اور ایک پگڑی سرپرباندھی جارہی ہے اورجب سہون پہلی مرتبہ میں پہنچا توبالکل وہی روضہ نظرآیا ،مغرب کاوقت ہے لوگ رقص کررہے ہیںاوراپنے حال سے بے خبر لوٹ پوٹ ہورہے ہیں۔کان میں آوازآئی شہبازؒ کے عاشقوں کا یہ حال ہے اورتواللہ کے عشق کا دعویدارہے ۔اسٹیشن کے سامنے والی پہاڑی پرچلاجااورجوطریقہ ”نورالہدیٰ “میں لکھاہے اسی طریقہ سے تصور سے اسم ذات کا ذکرکر۔میں اسی وقت پہاڑی کی طرف چلاگیااوراسم ذات کے ذکر میں مشغول ہوگیا۔دوران ذکر اونگھ آگئی دیکھا کہ محفل لگی ہوئی ہے کئی بزرگ بیٹھے ہیں ایک بزرگ جن کا جسم موٹادرازقد اور درازمونچھوں والے میری طرف اشارہ کرکے پنجابی زبان میں کہتے ہیں۔
اسی آں قلندر دیوانے لجپال دے
جسم میں لرزش اسی روشنی والی رات ہی سے شروع تھی اوردل کی دھڑکن سخی سلطان باھُوؒ کے دربار سے ہی نمایاں ہوگئی تھی اور آج وہی دھڑکن اللہ ھُومیں تبدیل ہوگئی تھی میں اپنی قسمت پربہت خوش تھااور جس راز کو بچپن ہی سے درباروں غاروں اور جنگلوں میں ڈھونڈرہاتھااپنے قلب میں پایا ۔تین دن تک شرابی کی طرح پہاڑی پر لطف اندوزہوتارہا۔نہ گرمی کی پرواہ اورنہ ہی بھوک پیاس کی چاہ رہی ۔رمضان کا مہینہ تھاروزوں کا خیال آیا ۔سحری کو اسٹیشن چلاجاتااورافطاری کے لئے سامان خرید کرلے آتا۔شروع شروع میں اس پہاڑ ی پر ڈرلگتاتھالیکن کچھ ماہ بعد خوف بالکل ختم ہوچکا تھا۔میری آنکھیں اندھیرے کی عادی ہوگئی تھیں۔رات کودورتک ہر چیز دیکھ سکتاتھاکبھی کبھی قریبی دریا پرنہانے کے لئے چلاجاتااورواپسی پراسٹیشن سے چنے وغیرہ خرید لاتا۔رات ہرحالت میں اس پہاڑی پرگزارتا۔ہررات کچھ نہ کچھ کشف ضرورہوتااوردل کی دھڑکن بھی اسم اللہ کے ساتھ تیزہوتی رہتی۔ایک رات میرے قریب کافی کُتے پہنچ گئے اوربھونکناشروع کردیا۔کاٹنے کے لئے دوڑتے لیکن قریب آکررک جاتے پھرگھنگھروکی آوازچاروں طرف سے آنے لگی اورپھرمیرے اوپرپتھر برسنا شروع ہوگئے اورمیں چپ چاپ دبکا رہاکچھ پتھر لگے اورکچھ اوپر سے گزرگئے ۔آج سارادن اسٹیشن پربیٹھارہا لیکن رات کو پہاڑی پرجانے سے ڈرلگ رہاتھا۔پھوسوچااللہ ھُو کرنااورموت سے ڈرنایہ توتوکل کے خلاف ہے اورپہاڑی پرچلاگیا۔آج کی شب جب سورة مزمل کی تلاوت کررہاتھامیں نے دیکھا فجرکاسماں پیداہوگیااورپہاڑی کے اردگرد بے شمارکرسیاں بچھ گئیں اورپھران کرسیوں پربے شمار بزرگ عربی لباس میں ملبوس رونق افروزہوئے ۔تیرہ آدمی میرے قریب کھڑے کردیئے گئے اورایک صداآئی آج چناﺅ ہونے والاہے ۔وہ آدمی مجھ سے عمر میں کافی بڑے تھے کسی نے صرف کپڑے کی دھوتی اور کسی نے درختوں کے پتوں سے اپناجسم ڈھانپاہواتھا۔معلوم ہوتاتھاکہ عرصہ سے جنگلوں میں چلّے اوروظیفے کررہے ہیں ۔میں اپنے آپ کو ان کے سامنے مکھی کی مانند سمجھ رہاتھااوران نورانی شکلوں میں کھڑاہونے سے بھی شرم آرہی تھی ۔اتنے میں آسمان سے بجلی کی مانند ایک لمبی روآئی اورمیرے جسم پرآن گری حاضرین حیران تھے کہ یہ کیسے ہوسکتاہے۔کل کا آیا ہوا پرانوں پر سبقت لے جائے ان تیرہ آدمیوں کے منہ سے نکلا شاید کچھ بھول ہو گئی اتنے میں دو بارہ رو آئی اور میرے جسم پر آن گری۔ان تیرا آدمیوں میں سے کسی نے غصہ سے کسی نے حیرت سے میری طرف دیکھا اور چلے گئے اس واقعہ کے بعد میرا جسم سخت بھاری ہو گیااور میں بغیر مشق کئے لیٹ گیا۔بال بال سے اﷲ ھو کی آواز سنائی دے رہی تھی ۔حتیٰ کہ دل سے ایسی سُریلی آواز آرہی تھی جیسے کوئی بچہ اﷲ ھو پڑھ رہا ہے میں جس سمت دیکھتا لفظ”اﷲ“ لکھا نظر آتا اور اب دل پر بھی خوشخط سنہری لفظوں میں لفظ”اﷲ“نظر آیا ۔بے اختیار زبان سے سبحان اﷲ نکلا۔آج کے بعد کئی قسم کی مخلوق اور کئی بزرگوں کی ارواح مجھے دیکھنے کے لئے آتے۔
ایک صبح جب رفع حاجت کے لئے پہاڑی سے نیچے اترنے لگا دیکھا بے شمار موٹے موٹے سیاہ رنگ کے چیونٹے میرے ارد گرد دائرہ بنائے بیٹھے ہیں میں حیران تھا کہ ان سے کس طرح گذر کے جاو ¿ں یہ پاو ¿ں کوکاٹےں گے اتنے میں ایک موٹا سا مکوڑا اپنی جگہ سے ہلا اور مےری طرف مخاطب ہوا ۔آواز آئی ڈرو نہیں ہم تمہا ری حفاظت کے لئے مامور کئے گئے ہےں ۔مےں نے کہا تم ننھی ننھی جانیں میری کیا حفاظت کرو گے۔ اس نے کہا یہاں سانپ بچھو اور زہریلے کیڑے بہت زیادہ ہیں ہم ان سے بخوبی نپٹ سکتے ہیں اس کے بعد انھوں نے میرے گزرنے کا راستہ چھوڑا دیا۔کسی کسی دن یہ مکوڑے بھی میرا حصار کرتے۔
.
±شروع میں پہاڑی پر جب اسم ذات کی مشق کرتا تو مجھے کئی بزرگ اپنے پاس کھڑے یا بیٹھے نظر آتے کچھ بہت ہی خوبصورت قسم کی عورتیں آتیں اور ان کو جھک کر سلام کرتیں۔ ان کے ہاتھوں میں گول قسم کے پنکھے ہوتے اور وہ ان بزرگوں کو جھلتی رہتیں لیکن جب وہ عورتیں میرے سامنے آتےں تو اکڑ کے مسکرا کے گزر جاتےں اور مجھے اپنی کمتری کا سخت احساس ہوتا۔اس برقی رو کے بعد دوسری رات بھی وہ عورتیں آئیںجب قریب سے اِترا کر گزر رہی تھیں تو آواز آئی اس کو اللہ نے عزت دی ہے تم بھی اس کی تعظیم کرو اور اس آواز کے ساتھ وہ کمر تک جھک گئیں اور شرمندہ ہو کر چلی گئیں۔جب کبھی دل پریشان ہوتا یا بال بچوں کی یادستاتی تو وہی عورتیں ایک دم ظاہر ہو جاتیں۔دھمال کرتےں اور پھر کوئی نعت پڑھتیں اوروہ پریشانی کا لمحہ گزر جاتا اور کبھی جسم میں درد ہوتا تو وہ آکر دبا دیتیں۔جس سے مجھے کافی سکون ملتا۔یاد رہے یہ سب ناسوتی واقعات پیش کئے جا رہے ہیں۔ حالات بالا اور راز بالا کی اجازت نہیں ہے۔
±شروع میں پہاڑی پر جب اسم ذات کی مشق کرتا تو مجھے کئی بزرگ اپنے پاس کھڑے یا بیٹھے نظر آتے کچھ بہت ہی خوبصورت قسم کی عورتیں آتیں اور ان کو جھک کر سلام کرتیں۔ ان کے ہاتھوں میں گول قسم کے پنکھے ہوتے اور وہ ان بزرگوں کو جھلتی رہتیں لیکن جب وہ عورتیں میرے سامنے آتےں تو اکڑ کے مسکرا کے گزر جاتےں اور مجھے اپنی کمتری کا سخت احساس ہوتا۔اس برقی رو کے بعد دوسری رات بھی وہ عورتیں آئیںجب قریب سے اِترا کر گزر رہی تھیں تو آواز آئی اس کو اللہ نے عزت دی ہے تم بھی اس کی تعظیم کرو اور اس آواز کے ساتھ وہ کمر تک جھک گئیں اور شرمندہ ہو کر چلی گئیں۔جب کبھی دل پریشان ہوتا یا بال بچوں کی یادستاتی تو وہی عورتیں ایک دم ظاہر ہو جاتیں۔دھمال کرتےں اور پھر کوئی نعت پڑھتیں اوروہ پریشانی کا لمحہ گزر جاتا اور کبھی جسم میں درد ہوتا تو وہ آکر دبا دیتیں۔جس سے مجھے کافی سکون ملتا۔یاد رہے یہ سب ناسوتی واقعات پیش کئے جا رہے ہیں۔ حالات بالا اور راز بالا کی اجازت نہیں ہے۔
اب سردیوں کا موسم آچکا تھا اس وجہ سے لعل باغ کا اشارہ ہوا عصر کے وقت لعل باغ پہنچا، حالات اور جگہ کا جائزہ لیا ایک گول سا مٹی کا چبوترہ تھا اس کے اوپر ایک درخت جھکا ہوا تھا اور اشارہ بھی اسی درخت کے نیچے بیٹھنے کا تھا۔باغ کے کونے میں ایک جھونپڑی تھی جہاںایک ادھیڑ عمر کی عورت کچھ سی رہی تھی۔دوسری طرف ایک اور بزرگ عمر تقریباً 100 سال بیٹھے ہوئے تھے میں نے ان سے باغ کے حالات معلوم کئے اورکہا کچھ دن اس چلہ گاہ میں عبادت کرنا چاہتاہوں۔ بزرگ نے کہا میں چالیس سال سے چلے کاٹ رہا ہوں، گھر بار چھوڑا ،اناج چھوڑا، مٹی کھائی ، معدہ کو خراب کیا لیکن فقیری نہیں ملی۔ تمہارے لئے بہتر یہی ہے کہ اپنی جوانی برباد نہ کرو۔ جا کے ماں باپ کی خدمت کرو اور بچوں کی پرورش کرو۔ بس یہی فقیری ہے ،ہر شخص قلندر نہیں بن سکتااور اس نے یہ بھی بتایا کہ چلہ گاہ بہت سخت ہے یہا ں کئی لوگ عبادت کی غرض سے آئے ایک رات بھی چلہ گاہ میں نہ ٹھہرسکے کئی کو جانی نقصان ہوا ۔
.
آدھی رات کا وقت تھا۔ چلہ گاہ میں داخل ہونا چاہا لیکن سخت اندھیرا اور بزرگ کی باتوں کا خوف رکاوٹ بن گیا چلہ گاہ سے دور ریت پر بیٹھ کر آنکھیں بند کر کے اللہ ھُو کی مشق شروع کر دی ۔ جب دوزانوں بیٹھے تھک گیا آلتی پالتی بیٹھ گیا۔ ایسا محسوس ہوا کہ کوئی چیز رانوں پر رینگ رہی ہے آنکھیں کھولیں ، دیکھا ایک لمبا موٹا سیاہ رنگ کا سانپ رانوں سے گزر رہا تھا آدھا گزر چکا تھا اور باقی میرے دیکھتے دیکھتے گزر گیا۔ مجھے لرزہ طاری تھا کہ یہ اگر کاٹ لیتا تو کیا ہوتا آواز آئی بچانے والا جب یہاں بچا سکتا ہے تو چلہ گاہ میں بھی بچا سکتا ہے۔میں فوراًاُٹھا اور چلہ گاہ میں اسی درخت کے نیچے بیٹھ کرپھر مشق شروع کردی ۔میرے پاس پانچ صدروپے بچے ہوئے تھے کچھ اس عورت کو اورکچھ دوسرے فقیروں کو بانٹ دیئے ۔کبھی کوئی چائے کی پیالی پلادیتااور کبھی کوئی کھانا کھلادیتا۔
آج بھوک بہت ستارہی ہے پیٹ میں بل پڑچکے ہیں اورپیٹ سے آوازآتی ہے ہائے بھوک ،ہائے بھوک اورسرمیں بھی بھوک کی وجہ سے دردہورہاہے۔دوپہر کو کچھ زیارتی ایک بس پرباغ میں آئے انہوں نے کسی مرادکے پوراہونے پر پلاﺅ کی دیگ خیرات کرنی تھی ۔میرے سامنے بکراکٹاچاول بِھگے ۔آگ جلی اور پلاﺅتیار ہوگیا۔اب وہ لوگ اپنے آدمیوں کو مٹی کی پلیٹوں میں ڈال کردینے لگے اتنے میں ایک کٹورااٹھائے ہوئے میں بھی پہنچ گیا۔میراخیال تھاکہ خیرات غریبوں مسکینوں کے لئے ہوتی ہے اور اس وقت میں بھی کسی مسکین سے کم نہیں تھا۔جوشخص دیگ پرکھڑا تھا مجھے سختی سے ڈانٹ دیااورکہاجہاں بھی جاﺅ یہ مانگنے والے پہنچ جاتے ہیں۔میری صورتِ حال دیکھ کرایک شخص کو ترس آگیا اور بڑی حلیمی سے کہنے لگاکہ سامنے بیٹھ جاﺅ ہمارے آدمی کھالیں اگرکچھ بچ گیاتوتمہیں دے دیں گے اور میں اپنے نفس کو برابھلاکہتاوہاں سے چل دیا لیکن اتنی بے عزتی کے بعد بھی بھوک نہ مٹ رہی تھی۔تب میں نے پیلوکے پتے کھانے شروع کردیئے ۔وہ کڑوے تھے لیکن پھربھی کافی مقدارمیں کھاگیا۔اب پتوں کی وجہ سے زبان پرچھالے پڑگئے ۔تیسرے دن مستانی نے کچھ سوکھے ٹکڑے دیئے ۔لیکن چبائے نہ جاسکے ۔مستانی کا حال بھی میری ہی طرح تھا،اگرکوئی زیارتی دوچارروپے دے جاتاتووہ دوکان سے آٹاچینی لے آتی اورجب کہیں سے کچھ نہ ملتاتوبھوک ستاتی ۔دوتین دن تک توبرداشت کرتی آخرگودڑی اٹھاتی اور کسی نہ کسی گاﺅں سے ٹکڑے مانگ لاتی جس سے میراکام بھی چل پڑتا۔میں نے وہ ٹکڑے ایک درخت کی جڑمیں رکھ دیئے اور رات کو چّلہ گاہ میں چلاگیا۔آ ج بھوک کی وجہ سے ذکر انفاس صحیح طورپر نہ ہوا۔صبح زبان قدرے بہترنظرآئی ۔جب درخت کی طرف گیاتوٹکڑے کوئی کُتالے گیاتھا۔بڑاافسوس ہوا۔اب مستانی کی جھونپڑی کی طرف گیامستانی عید منانے کے لئے علی الصبح ہی بھٹ شاہ چلی گئی تھی ۔جھونپڑی میں تلاش کیاکہ شاید کچھ کھانے کو مل جائے لیکن کچھ بھی نہ ملا۔
.
آج عید کا دن تھا سخی شہباز قلندرؒ کے پروانے عید منانے کے لئے باغ میں جمع ہورہے تھے اور رنگ برنگے کھانے تیل کے چولہوں پر پکنا شروع ہوگئے۔ میں ایک کونے میں بیٹھا یہ تماشا دیکھ رہا تھا نفس کہتاعید کا دن ہے کچھ تومانگ کرکھلادے اورمجھے دیگ والوں کی بات یادآگئی ۔نفس کو کہتااللہ کوغیرت پسندہے صبر کر۔سامنے ایک جوان سی عورت سوّیاں پکارہی تھی اورمیری نظروں کاجائزہ بھی لے رہی تھی۔کہتے ہیں عورت کی چھٹی حس بہت تیزہوتی ہے ۔وہ سمجھ گئی اوراپنی پانچ چھ سالہ بچی کو ایک پلیٹ میں سویّاں ڈال کرمجھے بھیجیں ۔میں کھابھی رہاتھااوررب کا شُکربھی ادا کررہاتھاکیونکہ دوسال میں پہلی دفعہ مجھے سویّاں نصیب ہوئی تھیں ۔ان سویّوں کے ذائقہ کے بعد نفس میں دوبارہ جان آگئی اور اب بھوک کی طلب پہلے سے بڑھ گئی۔تھوڑے بہت پتے چبالئے جاتے کیونکہ مستانی ایک ہفتہ تک واپس نہ آئی تھی بھوک کی وجہ سے آج سخت کمزوری محسوس کررہاہوں ،سرکا درد بھی زوروں پر ہے ۔سوچااس سے بہترہے کہ مرہی جاﺅں۔سرکو پتھر مارناشروع کردیا کہ کسی طریقہ سے پھٹ جائے لیکن نہ سرپھٹااورنہ ہی میں مرا۔ہواتیزچل رہی تھی اورمیں بڑاسنبھل سنبھل کرچلّہ گاہ کی طرف جارہاتھاکہ کمزوری کی وجہ سے کہیں اُڑنہ جاﺅں ۔چلّہ گاہ میں بیٹھاحسبِ معمول فاتحہ پڑھ رہاتھاکہ ایک شخص آکر قریب ہی بیٹھ گیا۔اس کے ہاتھ میں کٹے ہوئے سیبوں کی پلیٹ تھی ۔میں نے پلیٹ پہچان لی،یہ وہی پلیٹ تھی جسمیں سیب کاٹ کرمیں راولپنڈی میں فاتحہ دیاکرتاتھا۔اس نے پلیٹ میرے ہاتھوں میں دی اورکہا یہ سیب حضرت فاطمۃ الزہرؓہ نے بھیجے ہیں اورکہاہے کہ تم حالتِ خوشی میں ہم کویادکیاکرتے تھے اور آج حالتِ غمی میں ہم نے تم کو یادکیاہے۔
.
میں نے وہ سیب کھالئے اور کئی سال ایسے لگاجیسے پیٹ بھراہواہے ۔کھاناملتاتوکھالیتاورنہ بھوک نہ لگتی ۔ایک دن پتھریلی جگہ پر پیشاب کررہاتھا،پیشاب کا پانی پتھروں پرجمع ہوگیا اور ویساہی سایہ مجھے پیشاب کے پانی میں ہنستاہوانظرآیا،جس سائے سے مجھے ہدایت ملی تھی۔میری اس وقت کیاحالت تھی میں بیان نہیں کرسکتا۔میں جس کو ایک روحانی چیز سمجھتاتھا،جس کے حکم کے مطابق گھربارچھوڑا،ماںباپ ،بیوی بچوں کی محبت کوٹھکرایا،آج میں ا س سے بدگمان ہوچکاتھا۔اگروہ سایہ رحمانی ہوتا تو ناپاک جگہ کیوں نظرآتا۔ یہی خیال اوریقین تھاکہ یہ کوئی شیطانی روح ہے جوتیرے ساتھ لگ گئی اورتجھے بالکل بربادکرکے اپنااصل دکھایا۔اسم اللہ بھی رگ رگ میں بس چکاتھا اور اس کو بھی چھوڑنے کو دل نہیں چاہ رہاتھا۔جب د ل کی طرف دیکھاتوسوچتااسی سائے کی وجہ اورمددسے میں اس قابل ہوالیکن پھروہ بات سامنے آجاتی ،سمجھ میں نہ آتاکیاکروں ۔آخراپنی سابقہ زندگی کا بغورمطالعہ کیا۔معلوم ہواکہ اس سایہ کے لگنے سے پہلے تیراہر قدم گناہوں میں تھا۔رب کو بھولاہواتھارب اور اس کے حبیب ﷺ سے تجھے کوئی محبت نہ تھی اب اللہ اور اس کے حبیب ﷺ کے عشق میں روتاہوں گناہوں سے نفرت ہے ،نمازتلاوت اور ذکر و فکرمیں دل جمعی ہے گویاسایہ شیطانی ہی سہی لیکن اس کی وجہ سے تجھے ہدایت ہوئی اب اس سایہ سے کوئی مطلب نہ رکھ بلکہ ہدایت سے مقصدہے ۔عبادت کے لئے نمازروزہ نوافل تلاوت اوراذکارکافی ہیں ہدایت کے لئے نورالہدیٰ کافی ہے ۔یہ خیال آنے کے بعدمیں دوبارہ مضبوط ہوگیا اسکے بعد وہ سایہ چلہ گاہ میں نظرآیالیکن میں نے اس کی طرف کوئی توجہ نہ دی اورپھروہ بھی نظرآنابندہوگیااب یہی خواہش ہے کہ کسی طرح سے حضورپاک ﷺ کادیدارہوجائے،رات کا پہلاہی حصہ تھادیکھاکہ ایک سانولے رنگ کا آدمی سرسے ننگامیرے سامنے موجودہے گلے میں ایک تختی پربغیر زیروزبر کے محمدلکھاہواہے آوازآئی یہی رسول اللہ ہیں ۔سجدہ تعظیمی کرلو۔میرے ذہن میں سوال ابھرارسول اللہ ﷺ تونوری ہیں ،یہ سانولے کیوں ہیں جواب آیاتیرادل ابھی سیاہ ہے۔سیاہ آئینے میں سفید بھی سیاہ ہی نظرآتاہے بات سمجھ میں آئی اُٹھناچاہالیکن معلوم ہواکہ جسم پرسخت گرفت ہے اور وہی سایہ سرپرمسلط ہے۔
.
قدم بوسی کالمحہ گزرگیادل میں سخت ملال ہے اور اس سایہ پربڑاغصہ آرہاہے ۔جی چاہتاہے کہ سایہ کو خوب گالیاں بکوں لیکن یہ بھی خیال آتاہے کہ اس سے ہدایت بھی ہوئی اورخون جگر پی کررہ جاتا ہوںوقت گزرتاگیااسم ذات کے ذکر قلبی روحی سری وغیرہ ہوتے رہے ۔ایک دن ذکرجہر کی ضربیں لگارہاتھادیکھاکہ ایک سیاہ رنگ کا موٹاتازہ کُتاسانس کے ذریعے باہر نکلااوربڑی تیزی سے بھاگ کر دورپہاڑی پربیٹھ کرمجھے گھورنے لگااور جب ذکر کی مشق بندکی تو دوبارہ جسم میں داخل ہوگیا۔اب دوران ذکر گاہے بگاہے میں اس کُتے کو دیکھتا۔ کچھ عرصہ کے بعدمیں نے دیکھا کہ وہ کافی کمزورہوچکاتھا۔ایک دن ایسابھی آیاکہ وہ جسم سے نکلتا لیکن کمزور ہونے کی وجہ سے بھاگ نہ سکتا۔ اللہ ھُو کی ضربوں سے اس طرح چیختا چلاتا جیسے اسے کوئی ڈنڈوں سے ماررہاہو۔اب کئی دنوں سے اس کا جسم سے نکلنابند ہوگیاتھالیکن دورانِ ذکر ناف کی جگہ بچے کی طرح رونے کی آوازآتی کہ ہائے میں مرگیاہوئے میں جل گیا۔تقریباًتین سال بعد جہاںسے رونے کی آوازآتی اب کلمہ کی آوازآناشروع ہوگئی اور دن بدن یہ آوازبڑھتی گئی ناف کی جگہ ہروقت دھڑکن رہتی جیساحاملہ کے پیٹ میں بچہ ہو ۔ایک دن ذکر میں مشغو ل تھاجسم سے پھر کوئی چیز باہرنکلی دیکھا تو ایک بکرامیرے سامنے ذکرسے جھول رہاتھاکبھی وہ بکرامیرے جسم میں داخل ہوجاتااورکبھی میرے ساتھ ساتھ رہتا۔
No comments:
Post a Comment