Thursday, March 5, 2009

PAGE 1

.
بسم اللہ الرحمٰن الر حیم

جب سنِ بلوغت کو پہنچا ،تو فقیری کا شوق انتہا کو پہنچ چکا تھا۔ لیکن سیرابی کسی طریقہ سے نہ ہو رہی تھی۔ دن رات بابا گوھرعلی شاہؒ کے مزار پر بیٹھا درود شریف پڑھتا رہتا۔ جتنے نوافل پڑھے جا سکتے پڑھ لیتا تہجد بھی پڑھتا لیکن جس راستے کی تلاش تھی اس کا نام و نشان نہ ملتا۔

ہماری برادری کے ایک پولیس انسپکٹر جو پیر صاحب آف دیول شریف کے مرید تھے مجھے مشورہ دیا کہ یہ راستہ بغیر مرشد کے طے نہیں ہو سکتا ،پہلے کسی کا دامن پکڑو اور میں پیر صاحب آف دیول شریف سے بیعت ہو گیا انہو ں نے نماز پڑھنے کی تاکید کی اور ایک تسبیح اللہ ھو پڑھنے کی بتائی اور جب بھی تنہائی ملتی اللہ ھو پڑھتا رہتا۔ تقریباً ایک سال بعد نمازیں بھی ختم ہو گئیں اور وہ اللہ ھو بھی بے کیف رہ گیا ،اپنے آپ کو کولہو کے بیل کی طرح پایا جو سارا دن پٹی باندھے سفر کرتا رہتا۔ سمجھا بہت دور پہنچ گیا ہوں جب پٹی کھلی تو وہیں موجود تھا،اب پیر صاحب سے بدگمانی ہونے لگی۔ ان کے باقی مریدوں سے ملا کوئی پانچ کوئی چھ سال سے ان کے مرید تھے۔ طوطے کی طرح اﷲ ھو پڑھتے رہتے لیکن کسی کو محفل حضوری نصیب نہ ہوئی اور نہ ہی کوئی ذکر قلب تک پہنچا۔ البتہ وہ نماز روزہ کے پابند ہو گئے تھے۔ پیر صاحب سے بیت توڑنے کو کہا۔ کہنے لگے بیت کیوں توڑتا ہے۔ میں نے کہا میری پیاس نہیں بجھی اور اب گولڑہ شریف میں قسمت آزمانا چاہتا ہوں۔ انہوں نے کہا قادری مرید چشتی سلسلہ سے فیض حاصل نہیں کر سکتا۔ میں نے کہا میری قسمت اور بیت ٹوٹ گئی۔ اب گولڑہ شریف صاحبزادہ معین الدین صاحب سے بیت ہوا۔ انہوں نے نماز کے ساتھ ایک تسبیح درود شریف کی بتائی میں نے کہا کوئی ایسی عبادت بتائیں جو میں ہر وقت کر سکوں۔ بقول اس آیت کے کہ جب نماز پڑھ لو میرے ذکر میں مشغول ہو جاو¿۔ اٹھتے بیٹھتے حتیٰ کہ کروٹیں لیتے بھی انہوں نے کہ تو کس زمانے میں ایسی بات کرتا ہے ایسے طالب ختم ہوگئے۔ جا نماز پڑھ گناہوں سے توبہ کر۔ ایک تسبیح روزانہ درود شریف پڑھا کر، ماں باپ کی خدمت کر، رزق حلال کھااور ہمارے آستانے میں بھی حاضری دیا کر۔ بس یہی کافی ہے میں نے کہا نماز بھی پڑھتا ہوں۔ درود شریف کی بھی کئی تسبیحاں پڑھتا ہوں لیکن پیاس نہیں بجھتی ۔انہوں نے کوئی جواب نہ دیا اور بے رخی سے دوسرے شخص کی طرف متوجہ ہو گئے اور پھر تھوڑی دیر بعد آستانہ سے اٹھ کر چلے گئے۔ میں نے یہی سمجھاکہ ان کے پاس بھی ظاہری لبادہ ہے ورنہ طالب سے اس طرح کوئی بے رخی نہیں کرتا اور بیٹھے ہی بیٹھے وہاں سے بھی بیت ٹوٹ گئی۔

اب میں ہر وقت پریشان رہتا کہ کوئی ایسا رہبر مل جائے جس سے سکون قلب میسر ہو۔ میرے ایک دوست جو تصوف سے کچھ واقفیت رکھتے تھے مجھے ایک دوست کے پاس لے گئے وہ درویش لمبا چوغہ پہنے ہوئے تھا۔ جب ہم وہاں پہنچے تو ان کے خلیفہ نے گرم گرم دودھ کے گلاس پیش کئے۔کچھ امید قائم ہو گئی تھوڑی دیر تک فقیری کی باتیں ہوتی رہیں منزل سامنے نظر آنے لگی اتنے میں انکے خلیفہ نے حقہ آگے بڑھایا۔ فقیر نے لمبے لمبے کش لگائے اور چرس کی بو سارے کمرے میں پھیل گئی۔ میں جلدی جلدی کمرے سے باہرنکل گیا ۔وہ دوست بھی پیچھے پہنچ گیا اورسمجھانے لگا کہ ان فقیروں کی اپنی اپنی رمزیں ہوتی ہیں ۔یہ چرس ان کے لئے حلال ہے بلکہ جس کو یہ پلا دیں اس کا بھی بیڑا پارہے ۔میں نے کہا نشہ حرام ہے اور مجھے اس کی بو سے نفرت ہے ۔جب خدا نمازوں،روزوں اور تسبیحوں سے نہ ملا تو چرس پینے سے کیا امید ہو سکتی ہے ۔اس نے ایک شعرپڑھا
.
اﷲ اﷲ کرنے سے اﷲ نہیں ملتا
اﷲ والے ہیں جو اﷲ سے ملا دیتے ہیں
بلکہ ایک ہی کش سے پہنچا دیتے ہیں

میں نے کہا میرا دل گواہی نہیں دیتا کہ یہ اﷲ والا ہے۔اس نے کہا پھر تیری قسمت ہی خراب ہے۔
.
کچھ دنوں کے بعد نواب شاہ سے ایک رشتہ دار آگئے ۔ان سے تفصیلی بات ہوئی انہوں نے کہا کیا خبر تیری قسمت میں کامیابی ہے یا نہیں، خواہ مخواہ اپنا وقت ضائع کر رہا ہے۔ تو جام داتار کے دربار پر چلا جا۔ وہ زندہ پیر ہیں تجھے اپنی مہم کا اشارہ ہو جائے گا۔ میں جام داتار کے دربار پر پہنچا جمعرات کا دن تھا۔ رقاصائیں سندھی زبان میں کچھ پڑھ کر ناچ رہی تھیں۔ سب زائرین بچے ، جوان، بوڑھے ان ہی کی طرف متوجہ تھے، میں نے عشاء کی نماز پڑھی کچھ نوافل پڑھے اور تھکن کی وجہ سے جلدی نیند آگئی رات کا کوئی حصہ تھا، کسی نے مجھے جگایا دیکھا تو ایک بزرگ سامنے کھڑے تھے۔ ان کے قریب دو آدمی اور بھی تھے جو صرف ایک ایک دھوتی پہنے ہوئے تھے۔ بزرگ نے کہا ان کے ساتھ جاﺅ اور مسواکیں کاٹ لاﺅ۔ میں ان کے دو آدمیوں کے ساتھ قریبی جنگل میں چلا گیا اور جھال کی مسواکیں توڑنے لگا۔ تھوڑی دیر میں سیر سوا سیر کی لکڑیاں اکٹھی کرلیں ۔ دوسرے ساتھی مجھ سے زیادہ توڑ چکے تھے۔ کہنے لگے انہیں اٹھاﺅ اب واپس چلتے ہیں، انہوں نے فوراً اٹھالیں۔ میں نے بڑی کوشش کی لیکن اٹھا نہ سکا۔ حیران تھا کہ دو من کی بوری اٹھا لیتا ہوں لیکن یہ معمولی سا وزن کیوں نہیں اٹھ رہا۔ میری پریشانی پر وہ لوگ ہنسے اور کہنے لگے مرشد تو ہے نہیں اور فقر کے لئے نکل پڑا۔ یہ کہہ کر وہ چلے گئے اور میں نے اپنی ناکامی کا اشارہ پا کر بھی واپس لوٹنا نہ چاہا سوچا مرشد ابوبکر حواریؒ کا بھی نہیں تھا وہ کیسے کامیاب ہوئے جب گھر سے نکل پڑا تو پوری قسمت آزمالے اور درود شریف پڑھتا ہوا آگے کی طرف جنگل ہی جنگل میں چل پڑا نہ منزل کا پتہ کہ کہاں جانا ہے بس دل میں یہی بات ہے کہ جہاں بھی جائے گا زمین اسی رب کی ہے جس کی تلاش میں نکلا سات آٹھ سوکھی روٹیاں میرے پاس ہیں جوتے، قمیض، بنیان اتار کر پھینک دیئے، کمر میں ایک دھوتی ہے اور قرآن مجید گلے میں لٹکا ہوا ہے کئی دن سے سفر جاری ہے۔ کسی جگہ نماز پڑھی جارہی ہے کسی جگہ نوافل ادا ہو رہے ہیں اور کسی جگہ تلاوت کی جا رہی ہے۔ بھوک کا نام و نشان مٹ گیا۔ عادتاً دو چار نوالے سوکھی روٹی کے چبا لیتا ہوں۔ عجب مستی ہے سمجھتا ہوں کہ فقیر بن گیا۔ آزمائش کے لئے چڑیوں کو حکم دیتا ہوں۔ ادھر آﺅ ۔ وہ نہیں آتیں۔ پھر کہتا ہوں اچھا مر جاﺅ ۔ وہ نہیں مرتیں پھر سمجھتا ہوں کہ ابھی فقر ادھورا ہے۔
.
آج عصر کی نماز کے بعد جب سفر شروع ہوا تو ایک گدھا میرے بائیں جانب میرے ساتھ ساتھ چلنے لگا۔ میں نے اسے نظر انداز کر دیا کہ خود ہی تھک کر الگ ہو جائے گا۔لیکن جب سے وہ ساتھ لگا خیالات بدلنا شروع ہوگئے کہ رات آنے والی ہے ۔جنگل میں پتہ نہیں کیسے کیسے درندے ہوں گے ،ابھی تیرا حکم چڑیاں بھی نہیں مانتیں توان درندوں سے کیا نمٹے گا۔ وہ تجھے کھا جائیں گے اور تو دھوبی کے کُتے کی طرح نہ دین کا نہ دنیا کا اسی طرح ماراجائے گا۔ بڑی مشکل سے ان خیالات پرقابو پاتا ہوں ،پھر ایک شعر کانوں میں گونجتاہے۔
.
دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ اطاعت کے کچھ کم نہ تھے کرّوبیاں

اب اس شعر کے بارے میں بار بار سوچتاہوں اتنے میں میری نظرگدھے پر جاپڑی وہ مجھے دیکھ کرہنستا ہے میں پریشان سا ہوگیا کہ یہ کیسا گدھا ہے جو ہنس رہا ہے۔ اب وہ مجھے آنکھوں سے اشارہ کرتا ہے اورآوازبھی آتی ہے کہ میرے اوپرسوارہوجاﺅ میں ہٹتا ہوں اور بچتا ہوں پھر گدھے کے ہونٹ ہلتے ہیں جیسے کچھ پڑرہاہو جوں جوں اس کے ہونٹ ہلتے گئے میں اس کی طرف کھنچتا گیا اورآخرخود بخود اس کے اوپر سوار ہوگیا وہ گدھا تھوڑی دیر بھاگا اور پھر ہوا میں اڑنے لگا۔ میں نے باقاعدہ راوی ،چناب کے دریا عبور کرتے دیکھا، اپنے گاﺅں کے اوپر بھی پرواز کی، یعنی اس گدھے نے پورے پاکستان کی سیر کرادی اورپھرمجھے وہیں اتارا جہاں سے اٹھایا تھا۔ اب فقیری کے سب نشے ہرن ہوچکے تھے۔ اپنی حالت اور حماقت پر غصہ آرہاتھا۔ میں جلد اپنے وطن پہنچ کر دنیا کے عیش چکھنا چاہتا تھا۔ میں جلدی جلدی قدموں سے جام داتارؒ کے دربار کی طرف رات دن سفر کرکے پہنچا۔ میرے بہنوئی میری تلاش میں وہاں پہنچ چکے تھے۔ مجھے اس حالت میں دیکھا پوچھا کیا ارادہ ہے میں نے کہا بس منزل پالی ہے اب واپس چلتے ہیں ۔

اس دن کے بعد یعنی بیس سال کی عمرسے بتیس 32 سال کی عمر تک اسی گدھے کا اثر رہا۔ نمازوغیرہ سب ختم ہوگئی۔ جمعہ کی نماز بھی ادانہ ہوسکتی۔ پیروں فقیروں اور عالموں سے چڑ ہوگئی اور اکثرمحفلوں میں ان پر طنز کرتا۔ شادی کرلی تین بچے ہوگئے اور کاروبار میں مصروف ہوگیا۔ زندگی کا مطلب یہی سمجھا کہ تھوڑے دن کی زندگی ہے عیش کرلو۔ فالتو وقت سینما©ﺅں اور تھیٹروں میں گزارتا،روپیہ اکٹھا کرنے کے لئے حلال وحرام کی تمیز بھی جاتی رہی۔ کاروبارمیں بے ایمانی، فراڈاورجھوٹ شعاربن گیا یہی سمجھئیے کہ نفس امارہ کی قید میں زندگی کٹنے لگی۔ سوسائٹیوں کی وجہ سے مرزائیت اور کچھ وہابیت کا اثرہوگیا الحمدُللہ یہ اثرات اب زائل ہوچکے ہیں۔

نواب شاہ میں میری چھوٹی بہن رہتی تھی۔ اس کی بڑی لڑکی (عمرپندرہ سولہ سال) کو دورے پڑنے شروع ہوگئے ہاتھ پاﺅں اکڑ جاتے اور زور سے چیخیں مارتی اور کبھی دوران دورہ گھروالوں سے باتیں کرتی ۔اپنا نام اور مذہب کچھ اوربتاتی۔ گھروالے پہلے ڈاکٹروں کی طرف رجوع ہوئے، جب کوئی آرام نہ ہوا توعاملوں کو بلایا۔ انہوں نے کہا زبردست قسم کی دیوی ہے جو ہمارے بس سے باہر ہے۔ ایک دن دورے کی حالت میں لڑکی نے کہا ملتان شاہ شمس ؒ کے دربار پرلڑکی حاضری دوتب چھوڑیں گے۔ اس کی والدہ لڑکی کو ملتان دربار پرلے گئی۔ حاضری کے بعد بڑی بہن کے گھر چلی گئی جو ملتان کے قریب ایک گاﺅں میں آباد تھے۔ رات کو لڑکی کووہاں دورہ پڑااور اسی طرح کا دورہ بڑی بہن کی لڑکی کوبھی پڑا۔ وہ گھبرائیں اور صبح دونوں بچیوں کو راولپنڈی لے آئیں۔ میں نے ساری کیفیت پوچھی اورکہا کہیں اچھے ڈاکٹرکو دکھاتے ہیں۔ اثروغیرہ سب بنی بنائی باتیں ہیں میراخیال تھا کہ یہ ہسٹریا کا مرض ہے جسے عامل حضرات جناّت کا مرض کہہ دیتے ہیں میں دونوں لڑکیوں کو ایک دوست ڈاکٹرکے پاس لے گیا اور اس نے بھی یہی کہا ہسٹریا ہے ان کی شادی کردو۔اس نے انجکشن لگانا چاہا تو ایک لڑکی کا رنگ لال ہوگیا۔ کہنے لگی ڈاکٹر تب مانوں انجکشن لگاﺅ اور بازو آگے کردیا۔ ڈاکٹر نے انتہائی کوشش کی لیکن سوئی گوشت میں نہ جاسکی ۔ایسے لگتاکہ بازو پتھر کے ہوگئے۔ ڈاکٹر نے گھبراتے ہوئے کہا کہ انہیں کسی پیرفقیر کے پاس لے جاﺅ۔ یہ کوئی دوسری بات ہے میں نے پوچھا کہ کیا تم بھی جنات جادو اور آسیب وغیرہ کے قائل ہو۔ اس نے کہا کہ جادو کے متعلق تو پہلے پارے میں تصدیق ہے ۔جنات کا ذکرسورة جن میں ہے اورآسیب کے متعلق ایک آیت سنائی جس کا ترجمہ ہے کہ شیطان انسان کو آسیب سے پاگل کردیتاہے۔ اس نے بتایا کہ لالہ زار میں سائیں اسلم ہے اسکو دکھادو۔ بچیوں کوگھرلے آیا اور سوچتا رہا کہ انسان اشرف المخلوقات ہے ۔جنات اس کے جسم میں کس طرح داخل ہوسکتے ہیں۔ یہ ناممکن ہے لیکن وہ ٹیکہ کی سوئی گوشت میں داخل کیوں نہ ہوئی ۔

رات کو دونوں بچیاں سوگئیں اورمیں بیٹھ کران کی حفاظت کرنے لگا کیونکہ کبھی ان کو دورہ پڑتااورکبھی وہ چیختی چلاتی باہر کو دوڑتیں۔ رات کا تقریباً ایک بجا ہوگا میں نے دیکھا کہ ایک آگ کا شعلہ آیا اور ایک بھانجی کے سینے میں داخل ہوگیا اوراس کو دورہ پڑگیا۔ صبح ہی صبح بچیوں کوسائیں اسلم کے پاس لے گیا اس نے اپنی ہتھیلی پرپھونک ماری اور ہتھیلی میں دیکھ کران کے گھروں کے نقشے اور جس طرح یہ بیمار ہوئیں اور جن جن درباروں پر حاضریاں دیں سب کچھ بتادیا۔ حتیٰ کہ اسنے میرے گاؤں والے مکان کا نقشہ بھی بتادیا۔ لڑکیوں کو سامنے بٹھایا کچھ پڑھ کرپھونک ماری ۔لڑکیوں کی آواز اور رنگ بدل گئے ۔ان سے کہا تم کون ہو اور کہاں سے آئے ہو۔ ایک نے کہا میں دیوی ہوں اور دوسری میری بہن ہے۔ سائیں اسلم نے بچیوں کو ڈنڈوں سے خوب مارا انہوں نے آئندہ نہ آنے کی قسم کھائی اورکلمہ پڑھ لیا۔ پانچ دن تک بچیاں ٹھیک رہیں اورپھر وہی حالت ہوگئی ۔ان مشاہدات سے میرا دھیان پلٹ چکا تھا۔ دوبارہ سائیں اسلم کے پاس لے گئے اس نے کہا کہ گھر کے اندر مائی صاحبہ کے پاس لے جاﺅ۔ مائی صاحبہ نے ایک سفید رنگ کا تکیہ سامنے رکھا۔ اس پرکچھ پڑھا تو ایک سفید ریش بزرگ کا سایہ نمودار ہوا۔ ہم سے پوچھا کسی کو کچھ نظرآتا ہے۔ میں اور میری ایک بھانجی نے سرہلایا۔ مائی نے کہا انہیں سلام کہہ کراپنی کہانی سناﺅ۔یہ بری سرکارؒہیں مجھے صرف دکھائی دیتے رہے اوریہ بھی محسوس ہوتا رہا کہ کچھ باتیں کررہے ہیں اورہاتھ اور سر بھی ہلتے نظرآئے لیکن بھانجی سے تفصیل سے بات ہوئی۔ انہوں نے کہا، ریاض کے کاروبارمیں جونقصان ہورہاہے وہ بھی جادوہی کی وجہ سے ہے اورکہا ملتان والی کو جلد آرام آجائے گا لیکن تم کو بیماری کے لئے اور ریاض کو کاروبارکے لئے سات جمعرات تک ہمارے پاس دربارپرآنا پڑے گا اوراتنے ہی چکر مائی صاحبہ کے دربارپرجو روات کے پاس ہے لگانے پڑیں گے۔ اسی دن کے بعد ملتان والی بھانجی ٹھیک ہو کر ملتان چلی گئی ہم ماموں بھانجی درباروں کے طوافوں میں لگ گئے۔ جب ہم بری سرکارؒ یا دوسرے بزرگ کے مزارپر جاتے دل ہی دل میں السلام علیکم کہتے اور دل ہی دل میں وعلیکم السلام ،جواب مل جاتا اور کبھی تربت کی چادر پر اور کبھی دیوار پر مجھے بزرگ کا عکس نظر آتا۔ مسکراتے اور غائب ہو جاتے۔ اب مجھے دربار والوں سے محبت ہو گئی تھی۔ کام کاج میں بھی خیال ان ہی کی طرف رہتا۔ ہر وقت ولیوں سے متعلقہ کیسٹیں سنتا رہتا اورجو جذبہ اور شوق بارہ سال پہلے تھا دوبارہ ابھر آیا۔
.

No comments:

Post a Comment